بینظیر کی ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں تدفین

راولپنڈی میں جمعرات کو قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ہے۔


اس سے پہلے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی نماز جنازہ مزار کے قریب ہی واقع جنازہ گاہ میں ادا کی گئی۔
میں شرکت کی اور مقامی روایات کے مطابق ان کی قبر پر مٹی ڈال کر اسے پاؤں سے دبایا۔ بعد میں بلاول نے اپنی ماں کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
بھٹو خاندان کی طرف سے بینظیر بھٹو کی تدفین میں ان کی بھابھی غنویٰ بھٹو اور ان کے بھتیجے ذوالفقار جونیئر نے شرکت کی جبکہ ان کے چچا نے ان کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کی۔
بلاول نے سیاہ رنگ کا ماتمی لباس پہن رکھا تھا اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے متفقہ فیصلے کے مطابق بینظیر بھٹو کا آخری دیدار نہیں کرایا گیا کیونکہ جنازے میں شرکت کے لیے آنے والے کارکنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ نمازِ جنازہ کے وقت بینظیر کی میت کو ایمبولنس کے اندر ہی رکھا جائے۔
اس سے پہلے نوڈیرو ہاؤس میں موجود پارٹی کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ وہ گڑھی خدابخش روانہ ہو جائیں۔ گڑھی خدا بخش نوڈیرو ہاؤس سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں پر نمازِ جنازہ کے لیے مختص کی جانے والی جگہ پچاس ایکڑ بنائی جاتی
ہے۔

ادھر پاکستان فوج کے سربراہ جنرل
اشفاق پرویز کیانی نے بھی ایک پیغام میں بےنظیر بھٹو کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب ایک قومی رہنما کے قتل پر افسردہ ہوئے ہیں۔ ایک مختصر بیان میں انہوں نے مرحومہ کے خاندان اور دوست احباب سے تعزیت بھی کی ہے۔
نوڈیرو میں بھٹو ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے پارٹی رکارکنوں سے اپیل کی تھی کہ وہ رو کر ان کا دل چھوٹا مت کریں بلکہ خود بھی ہمت کریں اور ان کی بھی ہمت بندھائیں۔
انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ وہ بہادر بہن کے بھائی ہیں انہیں خود بھی حوصلہ کرناچاہیے اور دیگر لوگوں کو بھی حوصلہ دینا چاہیے۔
آصف زرداری کے خطاب کے دوران چند مشتعل کارکنوں نے پنجاب کے خلاف نعرہ بازی کی تو انہوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ پنجاب کا کوئی قصور نہیں بلکہ لٹیروں کا قصور ہے جنہوں نے ہم سے دھوکہ کیا۔
گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو چکے ہیں جبکہ پورے پاکستان سے کارکنوں کے قافلے اپنی رہنماء کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لاڑکانہ پہنچ رہے ہیں۔
بینظیر بھٹو کی چھوٹی بہن صنم بھٹو لندن سے نوڈیرو پہنچ گئی ہیں۔ انہیں ایک خصوصی طیارے سے کراچی سے لاڑکانہ لایا گیا۔ صنم بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے چھوٹی صاحبزدای ہیں۔ ان سے بڑی بہن اور دو بھائی قتل کیے جاچکے ہیں۔
جنازہ گاہ میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید نوید قمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو راولپنڈی میں ہی کیوں قتل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ رنجشیں نعروں میں بدل رہی ہیں۔
بینظیر بھٹو کا جسد خاکی پاکستان ایئرفورس کے ایک 130-C طیارے کے ذریعے راولپنڈی سے سکھر اور پھر وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ان کے آبائی شہر لاڑکانہ کے موہنجوداڑو ایئرپورٹ پہنچایا گیا تھا۔
بینظیر بھٹو کی میت پاکستانی وقت کے مطابق رات ایک بجکر بیس منٹ پر راولپنڈی کی چکلالہ ائیربیس سے سکھر کے لیے روانہ کی گئی تھی۔ طیارے میں ان کے شوہر آصف علی زداری اور بچے بلاول، بختاور اور آصفہ بھی موجود تھے۔ آصف علی زرداری اور ان کے بچے خصوصی طیارے کے ذریعے دبئی سے اسلام آباد پہنچےتھے۔
موہنجوداڑو ایئرپورٹ سے بینظیر بھٹو کی میت لاڑکانہ میں ’نوڈیرو ہاؤس‘ پہنچی تو موقع پر موجود سینکڑوں کارکن زار و قطار رونے لگے۔ ان میں سے کئی نے سینہ کوبی شروع کر دی۔

آصف زرداری نے جذباتی کارکنوں کو
صبر کی تلقین کرتے ہوئے راستہ دینے کی گزارش کی۔ جب میت کو گھر کے اندرونی حصے میں منتقل کیا جا رہا تھا تو آصف زرداری نے ہاتھ جوڑ کر لوگوں باہر رہنےکی اپیل کی۔
میت کے ساتھ ان کے پیپلز پارٹی رہنماء مخدوم امین فہیم، راجہ پرویز اشرف،
شیریں رحمان اور دیگر شامل تھے۔
اسلام آباد سے نامہ نگاروں ہارون رشید اور شہزاد ملک کے مطابق بے نظیر بھٹو
کی میت راولپنڈی جنرل ہسپتال سے چکلالہ ایئر بیس لے جائے جانے سے پہلے پیپلز پارٹی کے ایک رہنماء کا کہنا تھا کہ وہ میت کو سڑک کے راستے ہی ان کے آبائی قصبے لاڑکانہ لے جائیں گے۔
بے نظیر بھٹو کی میت جب ہسپتال سے باہر لائی گئی تو سینکڑوں کی تعداد میں غصے سے بھرے پیپلز پارٹی کے کارکن دھاڑے مار مار کر رو رہے تھے۔ ہسپتال کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ دم توڑ چکی تھیں۔ پروفیسر مصدق خان نے کہا کہ انہیں اوپن ہارٹ مساج کے ذریعے انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔
ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا کہ ایک گولی ان کی شہ رگ میں لگ کر سر سے نکلی ہے، جس سے دماغ کا پچھلا حصہ اڑ گیا۔ تاہم ڈاکٹروں کی ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ زخم دو الگ الگ گولیوں کی وجہ سے آئے۔ ابھی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔
(BBC)

تبصرے