اسلام آباد (ثناء نیوز ) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سادہ اکثریت کے بغیر 1973ء کے آئین کو بحال کرنے کیلئے ترامیم کی منظوری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے‘ حکومت احتساب قانون کے مسئلے پر اتفاق رائے حاصل کر لے گی

اسلام آباد (ثناء نیوز ) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سادہ اکثریت کے بغیر 1973ء کے آئین کو بحال کرنے کیلئے ترامیم کی منظوری حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے‘ حکومت احتساب قانون کے مسئلے پر اتفاق رائے حاصل کر لے گی‘ پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر مملکت آصف علی زرداری 17مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مسلسل پانچویں مرتبہ خطاب کریں گے‘ مہران بینک کیس کا فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا‘خودمختار ملک کی حیثیت سے بغیر کسی دباؤ کے تمام فیصلے آزادانہ طور پر کر رہے ہیں۔ ہفتہ کو وزیراعظم ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 4برس قبل جب انہوں نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھالا تو 1973ء کے آئین کی بحالی ایک کٹھن ٹاسک تھا لیکن حکومت نے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے 3آئینی ترامیم کی منظوری سے یہ ٹاسک حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس جمہوری حکومت کا کریڈٹ ہے جس نے اپنے 4برس مکمل کر لیے ہیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اپنے منشور کے 80فیصد پر عملدرآمد کردیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت احتساب قانون کے مسئلے پر اتفاق رائے حاصل کر لے گی جس طرح اس نے ترامیم کی منظوری کے حوالے سے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے میثاق جمہوریت پر 80فیصد عملدرآمد کرنے کی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ دیگر کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے خارجہ پالیسی پر قومی مفاد میں فیصلے کیے اور یورپی منڈیوں تک رسائی‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے انتخاب اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات سمیت کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت کے دوران کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا جبکہ سیاسی وفاداریاں حاصل کرنے کیلئے کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں کی گئی۔ گزشتہ 4برسوں کے دوران حکومت کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ توانائی کا بحران ‘ دہشت گردی اور انتہاپسندی سب سے بڑے چیلنج تھے جو ان کی حکومت کو ورثے میں ملے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان چیلینجوں کا سامنا کرنے کیلئے عملی اقدامات کیے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں دستیاب وسائل کے ساتھ عوام کو ریلیف فراہم کرے گی۔ بلوچستان کے مسئلے پر وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں کیونکہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی درخواست پر میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر حکام سے بات کی کہ وہ صوبے میں امن امان بہتر بنانے کیلئے صوبائی حکومت سے مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت رائلٹی اور این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے سمیت دیگر معاملات سے مطمئن ہے مگر ابھی اسے مسائل کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہیے‘ مجھے بھی بلوچستان کے لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اس لیے میں بلوچستان کے مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کیلئے بلوچستان حکومت سے مشاورت کر رہا ہوں‘ بلوچستان میں امن امان کی صورتحال غیر مستحکم کرنے میں غیرملکی مداخلت کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم غیر ملکی مداخلت مسترد نہیں کر سکتے۔ بلوچستان میں صورتحال غیر مستحکم کرنے میں کئی عوام اور قوتیں ملوث ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایف سی بلوچستان حکومت سے تعاون کی پابند ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلوچ ملک کے اتنی ہی وفادار ہیں جتنے دیگر علاقوں کے لوگ‘ مگر کچھ عناصر مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان کی تکمیل سے لوگوں کے مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ہر روز کئی فائلوں پر دستخط کرنے ہوتے ہیں اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ میں آئین اور قوانین کی پاسداری کرتا ہوںاور میں نہیں سمجھتا کہ میں نے کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ این آر او کیس پر عملدرآمد کے حوالے سے سپریم کورٹ کی تازہ ہدایت کے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے وکیل سے مشورہ کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ عدلیہ کا از حد احترام کرتے ہیں اور اپنے وکیل سے مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کے متعلق حتمی فیصلہ کریں گے۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جلد منعقد ہوگا۔ ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان بغیر کسی دباؤ کے تمام فیصلے آزادانہ طور پر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑائی کے بعد دوستی ہوتی ہے اور پاکستان توقع کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے نظرثانی پالیسی کے بعد امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوجائیں گے۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی ماضی کے باہمی تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ تھی اور اس سلسلے میں اعتماد کی بحالی کے اقدامات لینے کی ضرورت تھی۔پاکستان‘ ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی صورت میں اقتصادی پابندیوں کی دھمکی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایسی کوئی دھمکی نہیں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے مکالمہ‘ ترقی اور مزاحمت کی بات کی تو اس کو عالمی برادری نے نہیں سمجھا جو اب مذاکرات کیلئے بات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں’امن کو موقع دیا جانا چاہیے‘ کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ افغان مسئلے کو جنگ کی بجائے مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے حل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی قیات میں افغان مفاہمتی عمل کی حمایت کی اور افغان صدر حامد کرزئی کی درخواست پر طالبان کے تمام دھڑوں سے مفاہمتی عمل میں شرکت کی اپیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آزاد مستحکم‘ مضبوط اور خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اور ہم افغانستان میں حقیقی امن کے قیام کیلئے افغان عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری 17مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جوکہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں کسی بھی صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مسلسل پانچواں خطاب ہوگا۔ سیاستدانوں میں رقومات کی تقسیم کے حوالے سے مہران بینک کیس بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس کا فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ آئندہ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اس ضمن میں اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلہ کرے گی تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت نے 20ویں ترمیم کی بعد عام انتخابات میں دھاندلی کے تمام امکانات ختم کردیے ہیں اور انتخابات آزادانہ‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد یقینی بنادیا گیا ہے حتیٰ کہ عمران خان بھی ان دلائل سے مطمئن ہوجائیں گے۔ قیمتوں میں اضافہ کے مسئلہ بارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ وزراء اور سیکرٹریز کے احتساب بارے وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ 4سالہ دور اقتدار میں انہوں نے 3وزراء اور کئی سیکرٹریوں کو احتساب کے مسئلہ پر برطرف کیا۔ سینٹ انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ میں تبدیلی بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ کابینہ میں تبدیلی کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خسارے میں جانے والے حکومتی اداروں کے سربراہ ہٹا دیے جائیں گے تاکہ ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

تبصرے