بھارتی پولیس نے کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی کے خلاف کارروائی کے لیے منصوبہ تیار کر لیا ہے

نئی دہلی+ سری نگر(کے پی آئی )بھارتی پولیس نے کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی کے خلاف کارروائی کے لیے منصوبہ تیار کر لیا ہے ۔ علی گیلانی نے کہا ہے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں تین کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری ان کیخلاف ایک سازش ہے۔واضح رہے کہ دہلّی پولیس نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ جموں کشمیر اور جھارکھنڈ پولیس کے تعاون سے مسلح تنظیم لشکر طیبہ کے ایسے تین کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جو ایک حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ احتشام ، شفقت اور توصیف نامی ان تینوں نوجوانوں کا تعلق شمالی قصبہ سوپور کے ساتھ ہے۔بھارتی ٹی وی نے دعوی کیا ہے کہ کہ دہلی پولیس علی گیلانی سے اس بارے میں پوچھ گچھ کرے گی لیکن دہلی پولیس نے رسمی طور پر کسی ردعمل سے انکار کر دیا۔کشمیر پولیس کے سربراہ شو موہن سہائے نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ اس کیس کی تمام کڑیوں کو جوڑا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ہر اْس شخص سے پوچھ گچھ ہوگی جس نے ان نوجوانوں کی مدد کی ۔ تاہم موہن سہائے کا کہنا تھا کہ پاکستانی ویزا کے لئے سفارشی خط لکھنا کشمیری رہنماؤں کی پرانی روایت ہے۔اس معاملہ کی تفتیش سے یہ ظاہر ہوا کہ احتشام حال ہی میں پاسپورٹ پر پاکستان گئے تھے اور ان کے ویزا کی تحریری سفارش سید علی گیلانی نے کی تھی۔ علی گیلانی نے اپنے ردعمل میں مغربی نشریاتی ادارے کو بتایا ’یہ ہمیں پھنسانے کی سازش ہے۔ یہ ان ہی کے تنخواہ دار لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں پاسپورٹ دے کر پاکستان بھیجا گیا اور کہا گیا کہ ویزا کے لئے سفارش مجھ سے لے کر آو۔‘کشمیری رہنما کا مزید کہنا تھا کہ وہ ویزے کے لیے اسی کی سفارش کرتے ہیں جس کے پاس پاسپورٹ ہوتا ہے۔ ‘پاسپورٹ تو حکومت دیتی ہے۔ ہم تو صرف خط لکھتے ہیں۔دہلی میں مقیم علی گیلانی نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ مجھے یا دنہیں کہ میں نے اس نوجوان احتشام ملک کو پاکستانی ویزا کے حصول کیلئے سفارشی خط دیا تھا یا نہیں کیونکہ ہمارے پاس یہاں کئی کشمیری آتے ہیں جو بادی النظر میںجائز وجوہات کیلئے پاکستان جانے کے خواہاں ہوتے ہیں اور ہم انہیں ویزا کیلئے سفارشی خط دیتے ہیں لیکن ہم ایسے معاملات میں ہمیشہ پہلے ان کے پاسپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔علی گیلانی نے مزید کہاکہ ظاہر ہے کہ پاسپورٹ سرکاری ایجنسیوں کی مکمل تحقیق کے بعد ہی جاری کیا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے نام پر یہ پاسپورٹ جاری کیا گیا ہو ، اس کے بارے میں حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی کو پاسپورٹ جاری کرنے میں حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہو تو ہماری طرف سے ویزا فراہم کرانے میں سفارشی خط دینے میں کیا حرج ہے اور اسے کیونکر قابل اعتراض عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی بھی شخص ویزا کے لئے درخواست دیتا ہے تو بھارتی حکومت نہ صرف دہلی میں پاسپورٹ کے اصلی ہونے کی سند دیتی ہے بلکہ اس ضمن میں متعلقہ ہائی کمشنروں کومذکورہ شخص سے متعلق ریفرنس بھی دیا جاتا ہے ۔ لہذا یہ پورا معاملہ بھارتی حکومت کا ہوتا ہے اور اس میں کسی بھی شخص کا کوئی عمل دخل ہونا دور کی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیرمملکت برائے امور داخلہ ناصر اسلم وانی نے گزشتہ روز اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس نے جوگرفتاریاں عمل میں لائیں، ان میں کشمیر پولیس نے ان کے ساتھ اشتراک کیا کیونکہ کشمیر پولیس کو احتشام پر پہلے ہی شک تھا اوراس پر نظررکھی جارہی تھی۔ تاہم وہ جھارکھنڈ چلا گیا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ علی گیلانی نے ویزا کیلئے اس کی سفارش کی تھی ۔انہوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف تحقیقات ہورہی ہے او ر دہلی پولیس ریاستی حکومت کیساتھ رابطے میں ہے اور اگر ضرورت پڑی تو گیلانی سے پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے اور جو بھی بات سچ ہوگی وہ سامنے آئے گی۔‘دریں اثنا احتشام ، شفقت اور توصیف کے والدین نے کہا ہے کہ وہ تینوں بے قصور ہیں۔ احتشام کے والد فاروق احمد کا کہنا تھا وہ تعلیم کے سلسلے میں دہلی میں تھا۔واضح رہے کہ فاروق احمد کی شادی جھارکھنڈ کی ایک خاتون سے ہوئی تھی۔ مسٹر فاروق قالین کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے شوروم بھارت کے کئی شہروں میں ہیں۔پولیس کے مطابق احتشام کو سنہ دو ہزار سات میں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور رہا ہوتے ہی اسے والدین نے جھارکھنڈ بھیجا جہاں ہزاری باغ علاقہ میں ان کی والدہ کا گھر ہے۔مسٹر فارووق کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کو ہزاری باغ علاقہ سے گرفتار کیا گیا، پولیس جھوٹ بولتی ہے کہ دلّی سے گرفتار کیاگیا۔

تبصرے