چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ کا اصل کام آئین کی تشریح ہے حکمرانی نہیں انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے کسی حکومتی ادارے کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ عدالتوںپر اثر انداز ہو آرٹیکل 190کے تحت تمام ادارے عدالت کی معاونت کے پابند ہیں

اسلام آباد(ثناء نیوز ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ کا اصل کام آئین کی تشریح ہے حکمرانی نہیں انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے کسی حکومتی ادارے کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ عدالتوںپر اثر انداز ہو آرٹیکل 190کے تحت تمام ادارے عدالت کی معاونت کے پابند ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقدمات کاالتواانصاف کی جلدفراہمی میں رکاوٹ ہے ڈکٹیٹر نے ججوں کو بچوں سمیت بند کر دیا جبکہ وکلاء سول سوسائٹی اور میڈیا نے عدلیہ کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے تین روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن ۔سے خطاب میں کیا چیف جسٹس نے کہا کہ معاشرہ میںحکمرانی انسانوں سے نہیں قانون کے ذریعے ہوتی ہے کانفرنس کا مقصدایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے قومی عدالتی پالیسی کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ضلعی عدالتوں نے مختصر مدت میں ریکارڈ مقدمات نمٹائے عدلیہ کی بحالی کے بعد ہماری توجہ عدالتی امور کی بہتری کی جانب لگی ہوئی ہے انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کی اپنی اہمیت ہے انصاف کی جلد فراہمی کیلئے تمام فریقوں کو آگے آنا چاہیے انصاف کی فراہمی میں وکلاء کا اہم کردار ہے کرہ ارض پر امن اور سلامتی کی لئے عدلیہ کا اہم کردار ہے انصاف کی جلد فراہمی کیلئے ایپلٹ کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کی جرارت ہے چیف جسٹس نے کہا کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی لازمی ہونی چاہیے دوسری جانب کانفرنس میں تشکیل۔کردہ آٹھ گروپوں کی سفارشات بھی پیش کی گئیں جس میں کہا گیا ہے کہ ہر ادارے کو امنا دئرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے قانون نافز کرنے والے اداروں پر عدلیہ کی نگرانی ہونی چاہیے خفیہ ادارے مواصلاتی روابط میں آئین کے تحت مداخلت کریں عدالتوں کے ججوںاور ماتحت عملہ کی تربیت کے حوالے سے جودیشل اکیڈمیوں میں تربیتی کورسوں کے دورانیہ کو بڑھایا جائے قانون کی تعلیم دینے والے ادارے ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی 2012 کانفرنس کی سفارشات کی بھر پور حمایت کا عزم کیا جبکہ والدین کی جانب سے بچوں کو اغوا کرنے کے حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان 2003میں سائن ہونے والے جوڈیشل پروٹوکول معاہدہ کے تحت کارگردگی بڑھانے کی ضرورت ہے جبکہ بچوں کے والدین کے ہاتھوں اغوا کے کیسوںکو نمٹانے کے لئے صوبائی سطح پر قائم کئے جائیں جبکہ بچوں کے اغوا کے مسائل حل کرنے کیلئے افہام و تفہیم کا راستہ بھی اپنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر جو انہوں نے حضرت ﷺ کے بعداپنے خلیفہ منتخب ہونے پر کی اس کے ایک پیرے سے شروع کرتا ہوں:۔’’مجھے تم پر اتھارٹی دی گئی ہے باوجود اس کے کہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میںا چھا کروں تو میری مدد کرو اور اگر میں غلط کروں تو مجھے درست کرو۔ وفاداری یہ ہے کہ ایک حکمران کو سچ بتاؤ اور اس کو چھپانا ایک غداری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی منشاء ہوئی تو جب تک میں اس کے حقوق محفوظ نہیں کرتا تم میں سے کمزور میری نظر میں طاقتور ہے۔ تم میں سے مضبوط میری نظر میں کمزور ہے جب تک میں اس سے دوسروں کے حق محفوظ نہیں کر لیتا۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلتے تو اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرتا ہے۔ میری پیروی کرو اس وقت تک جب تک میں اللہ اور اس کے پیغمرؐ کے حکم پر عمل کروں اور اگر میں اس پر عمل نہ کروں تو تم کو میرا حکم ماننا لازم نہ ہے‘‘۔ یہ ہمیں مجموعی اور حقیقی طور پر کسی بھی معاشرے میں حکومت سازی کرنے کے عمل کو بتاتا ہے جو لوگ نہیں کرتے بلکہ قوانین کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگر ہر حاکم شخص گورنمنٹ کے کسی بھی شعبے میں اس نمونے پر من و عن عمل کرے تو بہت سارے مسائل جو آج کل ہماری عدالتوں میں طویل مقدمات کا موضوع بنے ہوئے ہیںکبھی رو نما ہی نہ ہوتے۔ لوگ روز مرہ زندگی میں اپنے حقوق کے استعمال کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے مسائل اور مشکلات کی تلافی کی خاطر مسائل سے نہ گزرتے۔ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ اس آج کے آخری سیشن کے اختتام پر بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس 2012ء کی رسمی کارروائی اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ میں اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاء اینڈ جسٹس کمشین آف پاکستان کی طرف سے تمام شرکاء خاص طور پر بیرونِ ملک سے آئے ہوئے ممتاز وفود کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ جنہوں نے اپنے مصروف زندگی سے وقت نکالااور طویل صفر کی صوبتوں کو برداشت کر کے اس کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔ ہمارے ساتھ تشریف رکھتے ہیں۔ میں خصوصی طور پر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کانفرنس میں خطاب کیا اور پیپر کی تیاری اورپڑھنے کی زحمت برداشت کی خصوصاً چےئرمین شرکاء گفتگو، معاونین ، رپیٹئرز اور مختلف سیشن میں بھر پور حصہ لیا۔ اس کا صلہ قانون سے متعلق ممبرز کو بھی جاتا ہے جنہوں نے کانفرنس کے مختلف سیشنز میں شرکت کی۔ مندوبین کے پر جوش انداز میں کانفرنس میں شرکت کو ملاحظہ کرتے ہوئے میں اس بات کو بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ایک کامیاب تقریب تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے ماضی میں بھی اس طرح کے قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل پروگرامز کا اہتمام کیا ہے۔ اس نظریے کے ساتھ کہ ہم مفاد عامہ اور باہمی فائدے کے معاملات میں تعاون کے دائرے کو وسیع کریں۔ 2006ء میں ہم نے سپریم کورٹ کا 50 سالا تقریب منائی جس کی وجہ کانفرنس کے شرکاء کو اندرونی اور بیرونی قانونی ماہرین کی آراء سے شناسائی ہوئی جنہوں نے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں کو چیلنجزکے مقابلے کے نظریے کو توسیع بخشی۔ میں ضرور کہوں گا کہ حکومتی عہدے داران کی شمولیت نے ہماری نیشنل جوڈیشل پالیسی بنانے میں بڑی مدد کی اور اس کو جدید ضروریات اور رکاوٹوں کے مطابق بنایا۔ یقیناً موجودہ کانفرنس بھی ہمیں مزید ترقی اور بہتری میں مدد کرے گی۔انہوںنے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے بین الاقوامی تقریب کا مقصد حکومتی عہدے داران کے ساتھ ان اشوز اور چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنا ہے جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تا کہ ہم ان مسائل اور مشکلات پر قابو پا سکیں جو ایک طرف سے باہمی مشاورت کا سلسلہ ہے یقیناً کانفرنس کے شرکا نے تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ ان تین دنوں میں مصروف رہے خصوصاً وہ جنہوں نے مختلف ورکنگ گروپ میں سوچ کو اجاگر کرنے والے مقالے پیش کئے جو ہمارے ملک کے لئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے خصوصی اعزاز تھا اس کے علاوہ میرے لئے بھی دونوں اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے اس طرح کانفرنس کا اختتام کرنا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہنا جو دنیا کے مختلف حصوں سے مدعو تھے، میں ضرور اپنے سپریم کورٹ اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سٹاف کوخراج تحسین پیش کروں گا اور ان عہدے داروںکو جن کے تعاون کے بغیر یہ بین الاقوامی تقریب کامیاب نہ ہوتی ۔ میں یہاں George Crabbeکی کہاوت بیان کرتا ہوں:۔Be there a will, and wisdom finds a way.”بلاشبہ نظامِ فراہمیِ انصاف کو نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا میں زیر التوا مقدمات کے مسائل کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے اس کانفرنس کے ذریعے قانونی اداروں سے تعلق رکھنے والے ذہین دماغ اورقانون فہیم افراد کو ایک قیمتی موقع ملا ہے کہ وہ اکھٹے بیٹھیں اور انتظام عدل کے نظام کو در پیش تکالیف و مشکلات کے لئے تجاویز اور حل دیں جو اکسیر ثابت ہوں۔مجھے یقین ہے کہ جو غور و خوض اور نتیجہ خیز نتائج ان وفود سے حاصل کئے گے ہیں یہ انتظام عدل کے نظام کو درپیش امتحان سے نپٹنے کے لئے بہت عرصہ تک ہمارے مستقبل کے منصوبوں کا حصہ ہوں گے۔ریاست کے دوسرے ستونوں کی طرح عدلیہ کا کردار کرہ ارض پر ایک پر امن اور خوشحال زندگی کے خواب کی تعبیر کو حاصل کرنے کے لئے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہر جمہوری، قانونی اور آئینی تحریک میں وکلاء پیش پیش اور ثابت قدم ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی تحریک عوام کے تعاون بھروسے اور خواہشات کے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ ماضی قریب میں جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے آئین میں تحریف کی کوشش کی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز صاحبان کو غیر فعال کر دیا اور ان کو اہل و عیال سمیت گھر میں بند کر دیا تو وکلاء طبقہ آگے بڑھا اور قانون کی حکمرانی /بالادستی اور عدلیہ کی خود مختاری اور آئین کی بحالی کے لئے ایک تاریخی تحریک شروع کی۔ ان کی تحریک نے ذرائع ابلاغ اور باخبر سول معاشرے کے تعاون سے ججز صاحبان اور آئین کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ میں وکلاء، میڈیا اور معاشرے کے ہر فرد ان کی تاریخی کوشش جو آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کے علم کو بلند رکھنے کے لئے انہوں نے کی اور جو قربانیاں انہوں نے دی ہیں اس پر ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ باہمی اور مشترک کوشش کتنی موثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ یقیناً وکلاء کی تحریک نے قانون کے پیشے کی وقار میں اضافہ کیا۔ جو کہ حقیقت سے ظاہر ہے کہ لوگ کا لے کوٹ کے پیشے کو مثالی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا جاتا ہے کہ یہ کامیابی مقدمہ باز عوام کو انصاف کی فراہمی کے نظام کو اضافی بوجھ تلے لے آئی ہے۔ اس نے بینچ اور بار کے کندھوں پر مزید بوجھ ڈالا جو انصاف کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ بے شک عدلیہ بار کے ممبران کے تعاون سے انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔ بینچ اور بار کے ممبرا انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں کر کے انصاف کے ارزاں اور فوری حصول کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ میں ان معزز شرکاء کو بتانا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ہم نے ملک میں انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہت سنجیدگی سے لیا ۔ انصاف کے ارزاں اور جلد فراہمی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے نیشنل جوڈیشل پالیسی کا انعقاد کیا جو کہ نیشنل پالیسی میکنگ کمیٹی نے ججز وکلاء اور دوسرے شعبوں کے ماہرین سے مشورہ کر کے بنایا۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے اہم نکات میں ہر سطح پر عدلیہ کی آزادی، کرپشن ، زیر التوا مقدمات کا خاتمہ شامل ہے۔ وکلاء نے عدلیہ کے انصاف کی جلد فراہمی کے اقدام کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں وکلاء کے آراء کو مد نظر رکھ کر ترامیم کی گئی۔ اور ان کا نقطہ نظر اس دستاویز میں منعکس ہو رہا ہے۔ مستقبل میں بھی مزید ترامیم وکلاء کے آراء کو مد نظر رکھ کر کی جائیں گی۔ یہ بات میں مطمئن ہو کر آپ لوگوں کے ساتھ شےئر کرتا ہوں کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی نے نتائج دینا شروع کر دئیے ہیں۔ مقدمات نمٹانے کے شرح میں دونوں جگہوں پر اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدالتوں میں بہت بہتری دیکھی گئی ہے۔ ہائی کورٹس نے ججز کی کمی کے باوجود بہت کوششیں کی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مقدمے نمٹاے ہیں۔ ضلعی عدالتوں نے بھی بہت اچھا کام کیا ہے اور بہترین نتاج دیے ہیں اور بڑے پیمانے پر مقدمات کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے باوجود اس کے کہ ان کی تعداد کم تھی۔انہوں نے کہا کہاگرچہ مقدمات کی تعداد ایک دن میں بیس یا پچیس سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے تا ہم دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات مقدمات کی تعداد ساٹھ اور ستر سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اور کچھ جگہوں پر ایک دن سو مقدمات سے بھی زیادہ ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اضافی آسامیاں نکالی جائیں اور اس پر جلد ہی تعیناتی بھی کی جائے۔ اسی طرح ایپلیٹ عدالتوں کی تعداد زیادہ کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس نقطے کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ آئین کی شق نمبر 199 صفی شق 4-Aکے تحت جب ہائی کورٹس محصولات کے تخمینے اور Collection کے بابت کوئی درمیانی آرڈر پاس کرتی ہے تو وہ حکم چھ مہینے کے اختتام پر کالعدم ہو نا چاہئیے اور ہائی کورٹس کو چاہئیے کہ وہ اسی چھ مہینے کے دوران اس مقدمے کا حتمی طور پر فیصلہ کر دے تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ باوجود اس آئینی بندش کے اس طرح کے معاملات بوجوہ غیر معمولی تعطل کا شکار ہے۔ جب کہ عدالت نے کوئی مزید وقت نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین کے مندرجہ بالا شق کے تحت عدالت وقت کے اضافے کا کوئی حکم پاس نہیں کر سکتی۔ چونکہ درمیانی آرڈر کا اطلاق چھ مہینے کے اختتام پر کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس لئے متعلقہ حکام اس آرڈر کے نفاذ میں حق بجانب ہیں جس آرڈر کے کالعدم کرنے کے لئے متعلقہ درمیانی آرڈر پاس کیا گیا تھا۔ محصولات کے تخمینے اور collection سے متعلقہ مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ عدالتوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ اس تنقیح کو مکمل ختم کرنے کے لئے اس پر نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں مزید غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں، انصاف کی فراہمی کے دوران ججوں کا پیچیدہ معاملات سے واسطہ پڑتا ہے -اس لئے ضروری ہے کہ وہ مکمل علم ، تجربے اورٹریننگ سے واقف اور مستفید ہوں تاکہ نئے اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں ۔ یہاں میں یہ بتانا چاہوں گا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ابھرتے ہوئے چیلنجوں اور اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کانفرنس کے موضوعات کو چنا گیا ہے ۔ یہ ہمارا یقین اور کوشش ہے کہ بہتر حکمرانی ، شفافیت اور ایک ایسا معاشرہ جہاں انصاف ہو کے ثمرات مستفید ہونے والوں تک جو کہ عوام ہے پہنچنے چاہئے۔ اور وہ اس قابل ہیں کہ وہ ایک پرامن اور فائدہ مند زندگی کو ایک صحت مند ماحول میں بسر کر سکیں۔ اس کانفرنس کو بلانے کے ہمارے تین مقاصد تھے :پہلا، مشکلات/چیلنجوں کی نشاندہی جس کا ہمارے نظامِ عدل کو سامنا ہے ۔ دوسرا ، مستقبل میں تحقیقی مقالمے اور بحث کو تیز تر کرنا تاکہ وہ ضروریات جن کی کانفرنس میں نشاندہی کی گئی ہے ان کی تفصیلی تلاش اور تیسرا، ہم پرامید ہیں کہ یہ کانفرنس نئی سوچیں پیدا کرے گی اور ہماری عدالتوں تک رسائی، اہلیت اور اثر اندازی کا پیش خیمہ ہو گی۔ میرے خیال میں اس کانفرنس ہونے والی بحث اور سوچ بچار یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اس کانفرنس کے ورکنگ گروپوں نے اپنے متعلقہ موضوعات پر اہم بحث اور سوچ بچار کی اور تفصیلی نتائج نکالے اور سفارشات دیں۔ اس کانفرنس کے مقررین نے میرے سامنے اہم نقاد کی نشاندہی کی اور سفارشات پیش کیں۔ اس بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس 2012 کے مندوبین اس قدیم ضرب المثل سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں:”ہر ایک کیلئے یکساں قانون ہے یعنی وہ قانون جو سب قوانین پر حاوی ہے یعنی ہمارے خالق کا قانون۔ انسانیت ، انصاف اور برابری کا قانون۔ قانونِ فطرت اور اقوام کا قانون” اس بات کو ملحوظِ خاطررکھتے ہوئے اس کانفرنس کی مزید قراردادیں ذیل ہیں۔ برداشت کی ثقافت کو پروان چڑھانے میں عدلیہ کے کردار کے بارے ہیں۔اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ تمام ذمہ داران مل جل کر پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو معاشرے میں جذب کرنے کے لئے کام کریںگے اوراس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک بامقصد نظام جو قانون کی حکمرانی سے اس کی وابستگی کو ناپ سکے کی کی ضرورت ہے اور اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس اور کورٹ ایکسیلینس فریم ورک کو اس سلسلے میں استعمال میںلیا جائے۔مانا کہ عدلیہ کو ہر لحاظ سے آزاد ماحول میں کام کرنا چاہیے لہذا اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ حکومت کے کسی بھی ادارے کو بالواسطہ یا بلاواسطہ عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ عدالتی منتظمین کا عدالتی نظام پر موثر کنڑول جج صاحبان کو انتظامی ذمہ داریوں کی نسبت منصفانہ ذمہ داریاں موثر طور پر سر انجام دیتے میںمعاون ثابت ہوگا۔ عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ قانون اور میرٹ کے مطابق برک رفتاری سے کرنا چاہیے اور اس چیز کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے احکامات پر عملدرآمد موثر طریقے سے ہو۔ یہ چیز بنیادی ہے کہ ایماندار اور فرض شناس افراد جو کہ انصاف کی فراہمی کا مظبوط ارادہ رکھتے ہیں کو منصف تعینات کیا جائے۔یہ مزید تجویز کیا جاتا ہے کہ تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 190 کی روشنی میں سپریم کورٹ کی معاونت کریں۔ یہ چیز بنیادی ہے کہ آئین کے آرٹیکل9 تا28 میں بیان کردہ پاکستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق خاص طور پر آرٹیکل37 اور 38 کی روشنی میں جو کہ معاشرتی انصاف سماجی برائیوں کے تدارک اور لوگوں کی سماجی اور معاشی فلاح و بہبود سے متعلقہ ہیں پر عملدآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس بات کا یہاں اعلان کیا جاتا ہے کہ دونوں یعنی دہشت گردی اور روپے کی غیر قانونی منتقلی پوری دنیا میں مہذب قوموں کیلئے بہت ہی شدید خطرے کا باعث ہے ۔ پاکستان کے وہ قوانین جو ان مسائل سے نمٹتے ہیں ان کو عالمی معیارات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مختلف عالمی قانونی ذمہ داریوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس بات کا مزید اعادہ کیا جاتا ہے کہ تمام متعلقہ اداروں جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، حکومتی وکلاء، ابتدائی مقدمے کی سماعت کی عدالتوں کے افسرِ جلیس صاحبان کو ان جرائم سے نپٹنے کیلئے ضروری تربیت اور وسائل مہیا کئے جائیں۔ اور روپے پیسے کی غیر قانونی منتقلی سے متعلق لین دین بشمول کم رسیدی اور اضافی رسیدی معاملات کو نگرانی کے موثر تکنیکی طریقہ کار کے ذریعے مربوط کیا جائے ۔ اس چیز پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ پاکستان کو مختلف ممالک کے ساتھ بہتر باہمی تعاون، شراکتِ معلومات اورمتعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بروقت اور موثر امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے باہمی قانونی مدد کے نظام کو مضبوط کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ مہذب معاشروں میں بہتر حکومت سازی مضبوط اور خود مختار اداروں پر انحصار کرتی ہے تو اس بات اعادہ کیا جاتا ہے کہ عدلیہ ریاست کا ایک بنیادی ستون ہونے کی حیثیت سے بہت موثر اور مستعدی سے اپنا کردار ادا کرے۔ اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ عدلیہ کو اس چیز کا احساس ہے کہ اس کی پہلی ذمہ داری معاشرے میں حکومت سازی سے نہیں بلکہ قوانین کی تشریح اور ان کے نفاذ سے متعلق ہے جو صرف اس کے فیصلوں سے بحیثیت ایک معاون کے نمودار ہو سکتی ہے۔ اس بات کی مزید سفارش کی جاتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کوعدالتی نظر ثانی کا ایک واضح و مستعد اصول وضع کرنا ہوگا تاکہ حقوق کے سیاق و سباق اور ماہیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عدالتی نظر ثانی کے معیارات کا اطلاق کیا جا سکے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ عدلیہ اپنے عدالتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کچھ سنیم (جھجک) کا مظاہرہ اس لئے کرتی ہے کہ کہیں یہ خیال نہ کر لیا جائے کہ عدالت حکومت کی امدادی شاخوں کے افعال، اعمال اور کردار کو غصب کرنے نہیں جا رہی۔ یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ عدالتی افسران کیلئے اخلاقی ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا جائے اور اس کو سختی سے نافذ بھی کر دیا جائے۔ پیچیدہ معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صورت میں یہ بات تجویز کی جاتی ہے کہ عدالت، متعلقہ مفاد کنندگان اور ماہرین کی دانست و فراز اور رائے پر انحصار کرتی ہے تاکہ ایک مزید معروف فیصلہ صادر کیا جا سکے ۔ نتیجتاً یہ سفارش کی جاتی ہے کہ عدالت نیم عدالتی اداروں کے انصاف کے قیام کے حوالے سے کردار کا ادراک کرتے ہوئے انہیں فروغ دینے کے ساتھ ان کے فرائض کی انجام دہی میں سہولتوں کی فراہمی کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات حل کرنے کے متبادل ذرائع سے متعلق قرارداد کے موضوع پر بحث !یہاں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ بار وکلاء کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ مفاہمتی معاملات میں شریک ہوں اور ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اے ڈی آر ان کی آمدنی کیلئے خطرہ نہیں بلکہ کاروبار وسیع کرنے کا ایک موقع ہے۔ یہ مزید سفارش کی جاتی ہے کہ اے ڈی آر کی شقیں 89۔اے ضابطہ دیوانی 1908ء جو کہ موجودہ حالات میں صرف اختیاری ہیں کو دیوانی معاملات میں لازمی بنا دیا جائے۔ اس کی بھی سفارش کی جاتی ہے کہ سائلین کے معاملات میں مفاہمت کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مقدمہ بازی میں ہر سطح پر موثر مالی جرمانے عائد کئے جائیں اور جرمانوں کا وہ نظام جو فی الوقت ہائی کورٹس کے رولز کے تحت نافذ العمل ہے کو ختم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہاے ڈی آر سینٹر کے قیام کے متعلق یہ تجویز کیا گیا کہ پہلے قدم کے طور پر ایک یادداشت وفاقی جوڈیشل اکیڈمی اور کراچی سنٹر فار ڈسپیوٹ ریزولیشن (KCDR)کے درمیان دستخط کی جائے۔ تاکہ وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کے سی ڈی آر کے اساتذہ کی خدمات عدالتی افسران کی مفاہمت ثالثی کی ٹریننگ کروانے کیلئے حاصل کر سکیں۔ اے ڈی آر کی ترقی جانچنے کیلئے اور ا س سے مقدمات کے متبادل بنانے کی خاطر پالیسی بنانے کیلئے اعداد و شمات کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی تحقیق کی جائے خاص طور پر ان مقدمات کی جو ثالثی عدالت نے فیصلے کئے ہوں۔ آخر میں یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اے ڈی آر کو ایک مضمون کے طور پر نہ صرف اداروں میں بھی متعارف کیا جائے جو اقتصادی تعلیم دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ حالیہ نفاذِ قانون نیو یارک کنونشن 1958ء اور ICSID کنونشن1966ء کی پاکستان میں پذیرائی ایک اچھا اقدام ہے جو کہ ملک میں غیر ملکی تجارت لانے میں مدد گار ہو گا۔ اس کی بھی بھرپور سفارش کی جاتی ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں اور فرائض کی مکمل پاسداری کی جانی چاہئے اور عدالتیں اس کو نافذ کریں، جو دونوں ہی صورتوں میں یعنی قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ،بین الاقوامی قانون کے تحت اس کے منافی اور غیر متوقع نتائج سے بچنے کیلئے بھی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ قانونی تعلیم کے حوالے سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قانونی تعلیم کو اس کے سب سے اہم مقصد کی طرف دوبارہ مرکوز کرنا ہے جو کہ جج صاحبان اور دوسرے متعلقہ پیشہ ور لوگوں کو سائلان کے درد سے آگاہی دینا ہے اور ان میں رائے عامہ کی ذہانت کی عزت پیدا کرنا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس امر کی اجازت دی جاتی ہے کہ جوڈیشل اکیڈمیز ججز صاحبان کو نہ صرف مادی قوانین کی تعلیم دیں بلکہ وہ مہارتیں بھی دیں جو کہ ان کے عدالتی امور کیلئے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ استعمال ہوتیں ہے ۔ یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ جوڈیشل اکیڈمیز میں جو دورانیہ تربیت کیلے مخصوص کیا گیا ہے کہ اس میں بھی اضافہ کیا جائے اور جب کہ تربیت کی قانونی تعلیم کے عام قومی معیار پر بنیاد رکھی جائے۔ اس امر کی بھی اجازت دی جاتی ہے کہ یہ اکیڈمیاں تجدیدی کورسزوقفے وقفے سے کرائیں تاکہ جج صاحبان اور ان کے سٹاف کی اہلیت بڑھائی جائے۔ آخر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ قومی عدالتی پالیسی 2009ء میں حاضر سروس جج صاحبان کی جوڈیشل اکیڈمیز میں تعیناتی پر پابندی کے حوالے سے تشریح نہ کی جائے۔ پدرانہ اغواء طفل اور بین الاقوامی دائرہ اختیارکے حوالے سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ بچوں کے اغواء پر 2003ء کے انگلینڈ – پاکستان عدالتی پروٹوکول کی قابلیت بڑھانے کے موثر اقدامات کئے جائیں ۔ بہت زیادہ اہم اس امر کی تجویز دی جاتی ہے کہ پاکستانی حکومت دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدات کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرے تاکہ غیر ملکی دائرہ اختیار والے فیصلوں پر موثر کاروائی کی جائے۔ پر اثر فراہمی انصاف کیلئے یہ ضروری ہے کہ صوبائی سطح پر لگن سے کام کرنے والے خصوصی Benchesبنائے جائیں۔ جن کے ساتھ ایجنسیوں کی باہمی تعاون کمیٹیاں معاملات آگے بڑھائیں تاکہ پدرانہ اغواء طفل کے مسئلے پر بنیادی توجہ مرکوز ہو سکے۔ ایک دوسرا قابلِ عمل طریقہ بھی ہے کہ امدادی مراکز یا غیر سرکاری تنطیمیں قائم کی جائیں جو والدین اور بچوں دونوں کی مخصوص ضروریات اور جن سے ان کو خطرہ ہے اس کے مکمل ادراک کی مہارت رکھتی ہوں تاکہ اغواء طفل کی حقیقتاً ہر شکل میں روک تھام کی جائے۔ آخر میں اس امر کی تجویز دی جاتی ہے کہ باہمی عداوت پر قابو پانے کے طریقے جیسا کہ صلح صفائی اغواء طفل کے مقدمات حل کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ Bhurban Environmental Declaration-2012 کی مکمل طور پر توسیع کی گئی ہے اور اس بات پر رضا مندی ظاہر کی جاتی ہے کہ قانونی موضوعات، ماحولیاتی چیلنجز اور بہترین روایات سے متعلق معلومات کو پھیلایا جائے۔ اس بات کی مزید تجویز دی جاتی ہے کہ مخصوص ماحولیاتی ٹربیونلز کو مضبوط کیا جائے اور ماحولیاتی تربیت مہیا کی جائے۔ اس بات کی یقین دہانی بھی ضروری ہے کہ ماحولیاتی مقدمات پر عدالتی فیصلوں تک عوامی رسائی ہو اور ان پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے۔ جب کہ قانونی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئیے کہ اپنے تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی قوانین کو شامل کیا جائے اور مزید یہ کہ ججز اور وکلاء کو موحولیاتی قوانین کے بارے میں تربیت دی جائے۔ اس بات کا بھی اعادہ کیا جاتا ہے کہ ججوں اور ماحولیاتی ماہرین کی امتیازی خدمات کو سراہنے کے لئے نظام وضع کیا جائے۔ اور اسی طرح تکنیکی ماہرین پر مشتمل مضبوط انفرا اسٹکچر تشکیل دینا چاہئیے اور اسے مضبوط کرنا چاہئیے اور آخر کاراس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی اور PIL مقدمات میں ذمہ داران افسران کو سزا دینی ہے یا بنیادی سہولت کے ساتھ جرمانہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ جنسی برابری اور عدالتی احساس ذمہ داری پر کمیشن تشکیل دیا جائے۔ عدالتی احساسِ ذمہ داری اور جنسی تعصب پر ججز، عدالتی اہلکاروں اور وکلاء کو عدالتی اکیڈمیوں کے ذریعے استداد بڑھانے کی تربیت دی جائے ۔ ان تمام لوگوں کے لئے جو عدالتی نظام سے منسلک ہیں ان کے لئے جنسی حساسیت پر ضابطۂ اخلاق مرتب کرنا چاہئیے۔ وسیع طور پر آگاہی پیدا کرنے کے لئے قانون کے سکولوں میں جنسی حساسیت اور عدالتی احساسِ ذمہ داری سے متعلق مضامین شامل کرنے چاہئییں۔ اس کانفرنس کے آٹھ ورکنگ گروپس میں سے ہر ایک کی تفصیلی سفارشات کو کانفرنس کی حتمی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا جس کو تمام عہدے داران کے علم اور جائزے کے بعد تبادلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جس مقصد کے لئے کانفرنس بلائی گئی تھی وہ مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ تفصیلی اور با مقصد بحث مباحثوں کو عدالتی نظام موثر بنانے اور آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے تیزی سے اپنایا جائے گا۔ایسے مواقعوں کے دوسرے معمولی فوائد میں مشترکہ اقدامات کا مقصد بین الاقوامی امن، تحفظ بھائی چارہ تمام اقوام میں دوستانہ تعلقات کا فروغ اور بین الاقوامی تنازعات کو خوش گوار اندازمیں حل کرنے کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہمیں الوداع ہونے سے پہلے ایک بار پھر بین الاقوامی عدالتی کانفرنس میں پرمقصد شرکت پر آپ کا شکر گزار ہوں میں قومی اور بین الاقوامی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جو اس کانفرنس کی کارروائی کے دوران منسلک رہا کو مناسب اور فقید المثال کوریج دینے پر تعریف کرتا ہوں۔ میں فاضل ججز صاحبان ، منتظمین، ریپوٹریرز، رضاکاران اور ان سب کو جنہوں نے اس تقریب کو کامیاب بانے کے لے دن رات کام کیااُن کی لگن اور دلچسپی کی تعریف کرتا ہوں سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی واپسی کا سفر محفوظ اور خوش گوار ہو اور آپ کی پاکستان کے دارالخلافہ میں آمداور قیام کے دوران میں اچھی یادیں لے کر جائیں۔ واضح رہے کہ کانفرنس میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس ،جرمنی،آسٹریلیا ، ساؤتھ افریقہ ،بھارت ،افغانستان سمیت 19ممالک کے چیف جسٹسز ،ججز اور آئینی ماہرین نے شرکت کی۔

تبصرے