(ثناء نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرائے کے بجلی گھروں (رینٹل) کے منصوبوںکو غیر شفاف،غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے

اسلام آباد(ثناء نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرائے کے بجلی گھروں (رینٹل) کے منصوبوںکو غیر شفاف،غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے عدالت نے سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اور سابق سیکرٹری شاہد رفیع سمیت تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین نیب کو ہدایت کی ہے کہ ان منصوبوں میں ہونے والی کرپشن اور بد عنوانی کے ذمہ داران تمام افراد کیخلاف فوجداری کارروائی اور اس حوالے سے ہر پندرہ روز بعد تحریری رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے دفتر میں جمع کرائی جائے ۔جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں میں اربوں روپے کی بدعنوانی سے متعلق کیس کا فیصلہ جو کہ گذشتہ سال 14دسمبر کو محفوظ کیا گیا تھاچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے پڑھ کرسنا یا۔ کیس کا فیصلہ چیف جسٹس نے خودتحریر کیا ہے۔ فیصلے میںکہا گیا ہے کہ عدالت نے کیس کو 2010 ء سے اب تک کئی بار سنا ہے۔ ملک کے منتخب نمائندے ملک کی خود مختاری کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ رینٹل پاور کیس میں ارکان پارلیمنٹ نے بھی کردار ادا کیا ہے۔مسلم لیگ ق کے رہنما فیصل صالح حیات نے الزام لگایا تھا کہ رینٹل پاور کے نام پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی گئی ہے اور 5 ارب ڈالرز عوام کی جیب سے نکالا گیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب ایم ڈی پیپکو اور دیگر انتظامی افراد نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے اس مقدمے میں فریق بننے کیلئے 21اکتوبر 2010ء کو درخواست دی تھی۔ فیصل صالح حیات نے بیان دیا تھا کہ عدالت آر پی پیز کا نوٹس لے،اس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی، انہوں نے الزام لگایا کہ 5ارب ڈالر عوام کی جیب سے نکالے گئے، ایم ڈی پیپکو سمیت دیگر انتظامی افراد نے ان الزامات کی تردید کی، عدالت کا کہنا ہے کہ گلف، کار کے، رشماں اور شرقپور رینٹل میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں ہوئیں۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ واپڈا ، پیپکو، جینکو قوم کو بھاری پیمانے پر نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ منصوبے قومی خزانے کو سخت نقصان کا سبب بنے ہیں جو بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور ان منصوبوں کے معاہدوں میں قومی اقتصادی کونسل (ای سی سی)کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔اور ان منصوبوں سے عوام کو 35روپے سے لے کر 42 روپے فی یونٹ بجلی خریدی جارہی ہے۔عدالت نے تما م منصوبے چاہے وہ ٹینڈر دے کر کیے گئے یا بغیر ٹینڈر کے دیئے گئے سب کو کالعدم قرار دیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ کرشن کے معملات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے حکم دیا جا تا ہے کہ معاہدے ختم ہونے والے منصوبوں میں کمپنیوں کو دی جانے والی رقوم کا سود ذمہ داران سے وصول کیا جائے۔اور ذمہ داران کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کاروائی کی جائے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف فیصلے کیے جا رہے ہیں۔یہ معاہدے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہیں۔

تبصرے