سپریم کورٹ آف پاکستان بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس کی سماعت کے دوران آئی جی ایف سی بلوچستان اور آئی جی پولیس نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کوئٹہ سے لا پتہ ہونے والے تین افراد کو جلد بازیاب کرا لیا جائے گا جبکہ دیگر لا پتہ افراد کے معاملہ کو بھی تمام حساس اداروں کی مشاورت سے حل کر لیا جائے گا جبکہ آئی جی ایف سی نے انکشاف کیا ہے کہ


لاقانونیت حد سے بڑھ جائے تو ملک ختم ہو جاتے ہیں ، سپریم کورٹاسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس کی سماعت کے دوران آئی جی ایف سی بلوچستان اور آئی جی پولیس نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کوئٹہ سے لا پتہ ہونے والے تین افراد کو جلد بازیاب کرا لیا جائے گا جبکہ دیگر لا پتہ افراد کے معاملہ کو بھی تمام حساس اداروں کی مشاورت سے حل کر لیا جائے گا جبکہ آئی جی ایف سی نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں جرائم پیشہ افراد ایف سی کی وردیوں اور اسی طرح کی گاڑیوں میں وارداتیں کرتے ہیں ۔پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان ہائیکورٹ بار کی جانب سے صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورت حال ، ٹارگٹ کلنگ اور لا پتہ افراد کے حوالے سے دائر مقدمات کی سماعت کی ۔ اس موقع پر آئی جی ایف سی عبید اللہ خان اور آئی جی بلوچستان پولیس عدالتی حکم پر بینچ کے رو برو پیش ہوئے جبکہ کوئٹہ شہر سے اغواء ہونے والے تین افراد کے حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ لا پتہ افراد کا معاملہ بلوچستان کا سب سے بڑا معاملہ ہے لیکن کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگی ۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف سی گاڑی نے کوئٹہ سے تین افراد کو اٹھایا ہے ۔ جس پر آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ فوٹیج میں صرف گاڑی کا پچھلا حصہ نظر آ رہا ہے اور ملزمان بھی ایف سی کی وردیوں اور اسی طرح کی گاڑیو ںمیں وارداتیں کرتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے لا پتہ ہونے کے واقعات میں پولیس اور ایف سی حکام پر برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایف سی پران افراد کو اٹھانے کا الزام آیا تھا تو آپ کو ایف سی کی پوزیشن واضح کرنا چاہیے تھی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایف سی اور پولیس دونوں کا موقف یہ ہے کہ ان افراد کو انہوں نے نہیں اٹھایا تو پھر عدالت کس سے ان کے بارے میں استفسار کرے بتایا جائے ان افراد کو زمین کھاگئی یا آسمان ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر ایف سی کے میجر نے ان افراد کو بازیاب کرانے کے لیے وقت مانگا تھا تاہم آج پھر عدالت کے سامنے ان افراد کو پیش نہیں کیا گیا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ان افراد کو ایف سی کی چوکی پر لانے یا نہ لانے کے حوالے سے آئی جی کو تحقیقات کرنا چاہئیں تھیں ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے آئی جی ایف سی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل ایف سی پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی تھی ۔ آج ہر دوسری انگلی ایف سی پر اٹھ رہی ہے آپ کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہے ۔جس ملک میں لا قانونیت حد سے بڑھ جائے وہ ملک ختم ہو جاتا ہے ۔ اس موقع پر آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ ایف سی پر بھی حملے ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں قبول کرتی ہیں ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی قربانیوں سے انکار نہیں لیکن عوام میں اعتماد پیدا کرنا آپ کا کام ہے اور اس مقدمہ میں تو ایف سی کے خلاف شواہد موجود ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز بھی کوئٹہ میں سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا ہے جسٹس جواد خواجہ نے استفسار کیا کہ اگر ایف سی پر 800 حملے ہوئے ہیں تو عدالت کو بتائیں کہ آپ نے کتنے حملوں کے ملزمان کو گرفتار کیا ہے تو آئی جی ایف سی نے کہا کہ ان کے پاس اس حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں جس پر جسٹس جوادکا کہنا تھا کہ آپ کا جواب مجھے مل گیا ہے ۔ دوران سماعت تین لا پتہ افراد کو اٹھائے جانے کے حوالے سے فوٹیج چلائی گئی تو پولیس حکام نے گاڑی کی شناخت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ گاڑی ایف سی کی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس افسر نے عدالت میں بتایا ہے کہ ایف سی نے ان افراد کو اٹھایا ہے اور بلوچستان حکومت بھی ایف سی پر الزام لگا رہی ہے جبکہ آئی جی ایف سی اس کا دفاع کر رہا ہے ایسے بہت سے واقعات منظر عام پر نہیں آتے لیکن اس مقدمہ میں شواہد موجود ہیں ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایف سی کے پاس کوئی ملٹری پولیس کی فوٹیج موجود نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ کون سی گاڑی کس وقت چھاؤنی میں داخل ہوئی ۔ جس پر آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ایسا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے سے بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ تمام اداروں کے تعاون سے اس صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ عدالت نے دونوں آئی جیز کو ہدایت کی کہ عدالتی وقفہ میں مشورہ کر کے بتائیں کہ انہوں نے اس مسئلہ کو کیسے حل کرنا ہے ۔ عدالتی وقفے کے بعد دونوں افسران نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کوئٹہ سے لا پتہ تینوں افراد کو بازیاب کرایا جائے گا اور دیگر لا پتہ افراد کے معاملہ کے حل کے لیے تمام سیکیورٹی کے اداروں کی مشاورت سے حل کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں صورتحال انتہائی سنگین ہے اسے احتیاط سے حل کرنا ہوگا اگر رینجرز اور پولیس بھی لا پتہ افراد کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تو پھر کس سے مدد مانگی جائے آئی جی ایف سی میجر جنرل عبد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ایف سی لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہی ہے تاکہ عدالت کے رو برو پیش کیا جا سکے ۔ عدالت نے دونوں آئی جیز کی یقین دہانی پر مقدمہ کی مزید سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی ہے ۔

تبصرے