سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس میں وفاقی سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کے پیش نہ ہونے پرعدالت نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے قرار دیا ہے

کوئٹہ (ثناء نیوز )سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس میں وفاقی سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کے پیش نہ ہونے پرعدالت نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ افسران کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عدالت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کمرہ عدالت میں مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک سکندر کا کہنا تھا جب تک دوسرا ڈپٹی اٹارنی جنرل نہیں آتا وہ وفاق کی نمائندگی کریں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا انہیں بتایا گیا ہے کہ سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو طلب کرنے کے احکامات منسوخ کئے گئے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالتی احکام کو مذاق بنالیا گیا خود ہی احکامات جاری اور منسوخ کرتے پھرتے ہیں۔ عدالت نے تبادلے کے احکامات معطل کرانے والے پولیس افسران کو فوری بلوچستان بھیجنے اور دیگر صوبوں کے افسران کے تبادلوں کی رپورٹ آج (بدھ کو) پیش کرنے کا حکم دیاہے۔ منگل کے روز سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حالات ایسے ہیں کہ کوئی14اگست نہیں منا سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے آئین کے مطابق اقدامات نہیں کئے جارہے۔ اگر بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرلیا جائے توصوبے کے60فیصد مسائل درست ہوجائیں گے ، ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس کا انہیں بازیاب کرانے کا کوئی ارادہ ہی نظر نہیں آتا۔ انہوں نے حکم دیا کہ زمین سے لائیں یا آسمان سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک چھ وزرافارغ کردینے چا ہئیں تھے۔اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایجنسیوں پر سنگین الزامات ہیں جبکہ وفاق اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی نوکری نہیں کرناچاہتاتواس کی تنخواہ بندکر دی جائے۔، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو چیف سیکرٹری بلوچستان، گورنر و وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹریز کے علاوہ سیکرٹری داخلہ و آئی جی پولیس عدالت میں پیش ہوئے تاہم وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری دفاع اور وفاقی سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ باہر لوگ چیخ رہے ہیں ، چیف جسٹس کا اس موقع پر یہ کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان کو بچانا ہے، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ایک بجے تک آسکتے ہیں توآجائیں ورنہ ان کے خلاف ایکشن ہوسکتا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف سی کے خلاف 80فیصد الزامات ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ جتنی تحقیر عدالتوں کی ہورہی ہے کسی کی نہیں کی جارہی، انہوں نے حکم دیا کہ زمین سے لائیں یا آسمان سے لائیں، لاپتہ افراد کو بازیاب کریں، اس موقع پر چیف جسٹس نے عدالت میں موجود دپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ بے بس ہیں،جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل جذباتی ہوگئے اور انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیاان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گردش ایام کی وجہ سے ڈپٹی اٹارنی جنرل بنے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ آپ کی گردش ایام نہیں ہے یہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی گردش ایام ہے جو باہر بیٹھے ہیں، چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دئیے کہ یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال قابو میں نہیں آرہی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، افراد کا لاپتہ ہونا اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اتھارٹی کے ناکام ہونے کو ظاہر کرتا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ثبوت بھی ملے ہیں کہ ایف سی، آئی ایس آئی، ایم آئی ان واقعات میں ملوث ہیں اور ہم نے یہ ثبوت آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس کو بھی دکھائے ہیں،اس موقع پر سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس کے حوالے سے آئی جی ایف سی کوبھی دوبارہ طلب کرلیا.ایک موقع پر جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ صوبے میں آگ لگی ہوئی ہے اور صوبے کے انتظامی سربراہان اور وفاق کو کوئی پرواہ نہیں ہے،ایک موقع پر عدالت نے جوائنٹ سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کو حکم دیا کہ بلوچستان میں ٹرانسفر کئے گئے پولیس افسران کے بلوچستان تبادلے کا نوٹی فکیشن لائیں۔دوران سماعت ڈی آئی جی ایف سی بریگیڈئر فرخ شہزاد نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ لاپتہ افراد میں سے کوئی بھی شخص ایف سی کے پاس نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی سے گزشتہ روز چیمبر میں ملاقات ہوئی تھی اور ان کو ہم نے کچھ گزارشات کیں ہمیں اندازہ ہے کہ آئی جی ایف سی پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا ڈی آئی جی ایف سی سے کہنا تھا کہ عدالت آپ پر بھروسہ کر رہی تھی لیکن آپ نے تحریری جواب داخل نہیں کیا۔ ڈی آئی جی ایف نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملہ میں مسلسل رابطے کر رہے ہیں۔ عدالت نے تبادلے کے احکامات معطل کروانے والے پولیس آفیسران کو فوری بلوچستان بھیجنے اور دیگر صوبوں کے آفیسران کے تبادلوں کی رپورٹ آج (بدھ) کو پیش کرنے کا حکم دیا جبکہ ڈی جی آئی بی نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس وسائل کم ہیں اور افرادی قوت بھی کم ہے اس کے باوجود وہ دہشت ردی پر قابو پانے کے لیے پولیس سے تعاون کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی آئی جی ایف سی سے کہا کہ بلوچستان میں ایف سی کے خلاف ایک خطرناک تاثر بنا ہے اس کو کیسے ختم کریں گے پولیس اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اپنی ترقیوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امن وامان کے بارے میں کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ کی صورتحال انتہائی خراب ہے یہ شہر امن کا گہوارہ تھا چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کو بچانا چاہتے بلوچستان کی پاکستان میں بہت اہمیت ہے سپریم کورٹ کے 17 ججز ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ تمام کے تمام عوام کو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف سی پر شہریوں کو اٹھانے کے الزامات خطرناک رجحان ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں پولیس کی کارکردگی پر حیرت ہوتی ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو جائے تو صوبہ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ سودا برا نہیں ۔سیکورٹی فورسز کیوں ایک قدم آگے نہیں بڑھتی۔ ڈی آئی جی ایف کا کہنا تھا کہ ایف سی فائٹنگ فورس ہے جس کا کام لوگوں کو اٹھانا نہیں لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حملہ کسی پر بھی ہو یہ ملک و قوم کا نقصان ہے سوال یہ ہے پولیس، سیولینز اور ایف سی کی موجودگی کے باوجود قتل عام جاری ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں بلوچستان میں لگی آگ کو بجھانا ہے۔ ۔چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک سکندر ایڈووکیٹ سے کہا کہ باہر لوگ چیخ رہے ہیں۔ ایجنسیوں پر سنگین الزامات ہیں اور وفاق اس معاملہ پر دلچسپی نہیں لے رہا ایف سی کے خلاف 80 فیصد الزامات ہیں زمین سے لائیں یا آسمان لے لائین ۔ لاپتہ افراد کو بازیاب کریں چار ماہ سے ہم آ رہے ہیں لیکن آپ بے بس ہیں ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم اپنے آپ سے بڑھ کر کام کر ر ہے ہیں ہم نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس لاپتہ افراد کے معاملہ میں دلچسپی نہیں لے رہی ہم یہاں بیٹھنے اور باتیں کرنے نہیں آئے ۔چیف جسٹس نے جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات کو مذاق بنا دیا گیا خود ہی احکامات کو مذاق بنا دیا گیا خود ہی احکامات جاری اور منسوخ کیے جا رہے ہیں جبکہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے بغیر ٹو پی کمرہ عدالت میں پیش ہونے پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کیا آپ کے ادارے میں کوئی ڈسپلن ہے ۔




تبصرے