گمشدہ اور لاپتہ فرد کو بازیاب کیاجائے(قاضی حسین احمد

سر کرسٹوفر اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر تھے۔ بنیادی طور پر کرسچین مشنری تھے۔ سادہ طبیعت کے آدمی تھے ایک روز منصورہ میں ملاقات کے لئے آئے۔ڈرائینگ روم سے باہر جوتے اتار رہے تھے کیونکہ ہم خود جوتے اتار کر بیٹھے تھے میں نے کہا آ پ جوتوں سمیت آسکتے ہیں انہوں نے خاموشی سے آہستہ جواب دیا ”میں جوتوں کے بغیر بھی آسکتا ہوں اور جوتے اتار کراپنی نشست پر بیٹھ گئے۔نہایت ادب کے ساتھ اور معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگے کہ آپ کے سینکڑوں لوگ روزانہ کشمیر اور افغانستان میں قتل ہو رہے ہیں ہمارے برطانیہ اور یورپ کے تین افراد کشمیر میں لاپتہ ہیں آپ خیال کریں گے کہ انہیں ہمارے ہزاروں لوگو ں کی فکر کم ہے اور اپنے تین افراد کے لئے پریشان ہیں اور وفد پر وفد لے کر سارے جہاں میں ان کی بازیافتی کے لئے سرگرداں ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ ہماری قوم کا کوئی فرد جب مفقودالخبر یا لاپتہ ہو جاتا ہے تو پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اسے دریافت کرے اور قوم اور حکومت کا اپنے سفارتکاروں اور بیرون ملک کام کرنے والے اداروں پر دباؤ ہوتا ہے کہ ہر طرح سے گمشدہ اور لاپتہ فرد کو بازیاب کیاجائے اس لئے ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہماری مدد کریں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کا براہ راست اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک دینی سیاسی رہنما کے حیثیت سے ایک بڑے طبقے میں آپ کا احترام ہے اور اگر آپ کی طرف سے ہمارے حق میں کوئی اپیل آئے گی تو ہمیں یقین ہے کہ اس کا فائد ہوگا۔ ہائی کمشنر کے ساتھ مفقودالخبر لوگوں کے اہل خانہ میں سے کچھ خواتین بھی تھیں۔ انسانی مسئلہ تھا میں نے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کرکے انہیں خوش اسلوبی سے رخصت کیا۔
میں جب اس کا مقابلہ اپنے ملک کے حالات سے کرتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہماری حکومت نے اپنے سینکڑوں شہریوں کو امریکیوں کے حوالہ کرکے گوانتا موبے کی سرزمین بے آئین میں بھیج دیا جہاں خود امریکہ کی عدالتوں کی عملداری بھی نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہزاروں شہریوں کو تفتیش کی غرض سے امریکیوں کے سپرد کر دیا اور اپنے ملک کے اندر ان کے لئے عقوبت خانے قائم کئے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہزاروں افراد کو اٹھا کر ایساغائب کیا کہ سالہا سال سے ان کے اہل خانہ کو انکے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر نہیں ہے۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن کے بہانے لاکھوں لوگوں کو بے سرو سامانی کی حالت میں گھروں سے باہر بے آب و گیاہ میدانوں میں پھینک دیا گیا۔ بعض حالات میں آپریشن سے محض چند گھنٹے قبل لوگوں کو گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا جس کی وجہ سے لوگ مویشیوں کو گھروں میں کھونٹوں سے بند ھا ہوا چھوڑ کر بیوی بچوں کے ہمراہ دشوار گزار پہاڑی راستوں میں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔سینکڑوں خواتین کے حمل گرگئے بہت سے معصوم بچے راستے میں فوت ہوگئے اور اب تک لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے باہر خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ یہ سب کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیاگیا جو دراصل امریکیوں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔
کتنے ہی باضمیر فوجی افسراورجوان لاپتہ کر دیے گئے ہیں کتنے ایمان والے اور اپنی غیر ت و حمیت سے سرشار نوجوان اپنے والدین سے چھین لئے گئے ۔کتنی عورتیں اپنے بچوں سمیت بے سہارا کردی گئیں۔عدالتیں بے بس ہیں قانون اور آئین نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے ۔ مظلوم اور بے سہار ا خواتین اور بوڑھے ماں باپ اپنے بچوں کو لے کر دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں لیکن انصاف کا کوئی دروازہ بھی اس ملک میں کھلا نہیں ہے۔استعمار کے آلہٴ کار حکمرانوں کے سامنے افواج پاکستان کے جوان اور افسران بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں اور بے جان روبوٹوں کی طرح ہر جائز ناجائز حکم ماننے پر مجبور ہیں ۔
ایک لاپتہ بزنس مین جناب مسعود جنجوعہ ، جو ایک ریٹائرڈ آرمی کرنل کے بیٹے ہیں کی حوصلہ مند بیوی بیگم آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے خاوند سمیت لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی مہم چلانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے چھوٹے بچے اسی جدوجہد کے دوران سالہا سال تک باپ کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اس نے امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس نے کئی مرتبہ تسلی دلائی کہ وہ اس کے سرپرست کا کردار ادا کرے گا لیکن سپریم کورٹ بھی انصاف دلانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔گرمی اور سردی کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ اور قومی پریس کلب کے سامنے بہتر (72 ) دن تک کیمپ لگایا ملک بھر سے متاثر ین بچے عورتیں اور بڑے بوڑھے اس کیمپ میں زمین پر لیٹے رہے لیکن نہ قوم نے کماحقہ ان کے حق میں آواز بلند کی نہ عدالتوں نے اپنا فرض پورا کیا نہ قومی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاں ان کی شنوائی ہوئی ۔پریس بھی عمومی طور پر مصلحت کا شکار رہا۔
ہم نے ان کے حق میں یک قومی سطح کا سیمینار منعقد کیا جس میں تمام بڑی پارٹیوں کے چیدہ لیڈروں نے شرکت کی اور یقین دہانی کرائی کہ وہ ان مظلوموں کے زخمی دلوں پر مرہم رکھیں گے اور ان کے غموں کا ازالہ کرنے کی سبیل اپنا ئیں گے ۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان افراد کے حق میں آواز بلند کریں گے لیکن روزانہ کے واقعات اتنی بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں روزمرہ کے ظالمانہ واقعات معمول بن گئے ہیں۔ کسی کی جان و مال اور عزت کی حفاظت حکومت اور امن و امان کے ذمہ داران کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کسی کا جگر گوشہ قتل ہوگیا یا کسی کا سہاگ لٹ گیا یاکسی کی آبروریزی ہو گئی حکمرانوں اور عدلیہ کے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ستتر(77 ) دنوں کا کیمپ بالآخر ختم کرنا پڑا مجھے کیمپ میں خدمت کرنے والوں اور مفقود الخبر لاپتہ افراد کے ورثاء میں تمغہٴ استقامت اور تمغہٴ خدمت انسانیت تقسیم کرنے کے لئے دعوت دی گئی ۔ میں شرمندہ تھاکہ ان مظلوموں میں کس منہ سے تمغے تقسیم کروں کیا ان کے پیارے انہیں واپس مل گئے ہیں ؟ کیا ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی کو ئی تصدیق ہو سکی ہے کیا انہیں اپنے جگر گوشے کی لاش دے کر ہی ان کی تسلی کر دی گئی کہ وہ اب اپنی قسمت پر صبر کریں۔
ہم اپنی قوم کے بارے میں اپنے رب کے سامنے کیا جواب دیں گے جو بہت ارمانوں کے ساتھ ایک عادلانہ معاشرے کے قیام کی آرزومدت سے سینے میں سمائے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ ہم استعمار اور ان کے بے رحم اور سنگ دل ایجنٹوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں نکل آئیں اور ایک بلند و بالا مقصد کی خاطر اس دنیا کی ہر متاع کی بازی لگا دیں۔

تبصرے