ملک میں دینی وحدت اور یکجہتی و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے

اسلام آباد(ثناء نیوز )ملک میں دینی وحدت اور یکجہتی و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کونسل کی تشکیل نو سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ہونگے جو 15 دنوں میں تمام مسالک کا نمائند ہ اجلاس بلا کر کونسل کے ذمہ داران کا اعلان کریں گے۔کونسل کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے تحریک چلانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ مسالک میں ہم آہنگی کے لیے عملی و تحقیقی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ نماز جمعہ کے مشترکہ خطبہ کے لیے بھی کمیٹی کا قیام عمل میں آئے گا۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایات کے جائزہ کے لیے ایک اعلی اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ 17 نکات پر مشتمل ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ اعلانات پیر کو اسلام آباد میں قاضی حسین احمد کی میزبانی میں 25 سے زائد دینی و مذہبی جماعتوں و تنظیموں کی اتحاد امت و اسلامی یکجہتی کے موضوع پر کانفرنس کے اختتام پر کیے گئے ہیں۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جبکہ قاضی حسین احمد نے کونسل کا ضابطہ اخلاق پڑھا۔جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن ،اسلامی تحریک کے صدر علامہ سید ساجد علی نقوی، جمعیت علماء اسلام(نظریاتی) کے امیر مولانا عبد الرحیم نقشبندی، جمعیت علماء اسلام(ف) کے ممتاز رہنماء، حافظ حسین احمد، پروفیسر عبد الرحمن مکی، نائب خطیب لال مسجد مولانا عامر صدیق ، خیبر پختونخوا کے سابق سینئر وزیر سراج الحق، سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم بھی اس موقع پر موجود تھے جبکہ آزاد کشمیر ، گلگت وبلتستان کے نمائندوں کے علاوہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حنیف جالندھری نے بھی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اتحاد امت اور اسلامی یکجہتی کونسل کے زیر عنوان آج مورخہ 21 مئی 2012ء بروز اتوار میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پاکستان کے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی مشترکہ کانفرنس نے مندرجہ ذیل اعلامیہ پر اتفاق کیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے انتخابی پلیٹ فارم اور دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کا اعلان کیا جاتا ہے اس کے حوالے سے دیگر معاملات طے کرنے کے لیے جناب قاضی حسین احمد کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ کمیٹی کے اراکین کا فیصلہ جناب قاضی حسین احمد و دیگر قائدین اورتنظیموں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ اعلامیہ تیار کرنے والی کمیٹی اور اراکین میں حافظ حسین احمد، پروفیسر محمد ابراہیم، پیر عبد الشکور نقشبندی، صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی، محمد یحییٰ مجاہد، صاحبزادہ سلطان احمدی، محمد خاں لغاری، ثاقب اکبر شامل تھے۔ 17 نکاتی ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ یہ ملک بھر کی تمام دینی جماعتوں اور نمائندہ قیادت کا فرقہ واریت کے خلاف مشترکہ، متفقہ ضابطہ اخلاق اختلافات اور بگاڑ کو دور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم 31 سرکردہ علماء کے 22 نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔ ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت کو اسلام کے خلاف سمجھنے اس کی پر زور مذمت کرنے اور اس سے اظہار برات کرنے پر متفق ہیں۔ کسی بھی اسلامی فرقہ کو کا فر اور اس کے افراد کو واجب القتل قرار دینا غیر اسلامی اور قابل نفرت فعل ہے۔نبی اکرم ﷺ کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آپ ﷺ کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً و قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں اس لیے توہین رسالت کے ملکی قانون میں ہر ترمیم کو مسترد کریں گے اور متفق اور متحد ہو کر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہل بیت اطہار و امام مہدی رضی اﷲ عنھم، عظمت ازواج مطہرات رضی اﷲ عنھا اور عظمت صحابہ اکرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین و خلفائے راشدین رضوان اﷲ علیھم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابل مذمت و تعزیر جرم ہے۔ ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزادی اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔شر انگیز اور دل آزار کتابوں ،پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت ، تقسیم وترسیل نہیں کی جائے گی۔ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہو گی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابل سزا ہو گا۔ دل آزار، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔ دیواروں، ریل گاڑیوں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعرے اور عبارتیں لکھنے پر مکمل پابندی ہو گی۔ تمام مسالک کے اکابرین کااحترام کیا جائے گا۔ تمام مکاتب فکر کے مقامات ،مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیر قانونی اسلحہ کی نمائش نہیں ہو گی۔ عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔ عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائین جن سے تمام مکاتب فکر کیے علماء بیک وقت خطاب کر کے ملی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔ مختلف مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد و نکات کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل اور رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔ ضابطہ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطہ کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔قاضی حسین احمد نے بتایا کہ اعلامیہ کے تحت ان کی سربراہی میں جو کمیٹی قائم ہو گی وہ 15 دنوں میں اپنے نمائندہ اجلاس میں تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کر دے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کونسل کا سیکرٹریٹ بھی قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل قطعاً ایم ایم اے یا دفاع پاکستان کونسل کی متبادل نہیں ہے۔ ان اتحادیوں کی اعلامیہ میں افادیت اور موجودگی کی تعریف کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے حوالے سے ملک میں حالات اتنے گھمبیر ہو گئے تھے کہ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی ضرورت محسوس کی گئی اور مسلمانان پاکستان کا نمائندہ اجتماع ہوا ہے۔




تبصرے