سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف مبینہ کرپشن کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے داماد کے توسط سے ارسلان افتخار کو 34 کروڑ 25 لاکھ روپے دیئے تاہم انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں کسی بھی مقدمہ میں ریلیف حاصل نہیں ہو سکا


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف مبینہ کرپشن کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے داماد کے توسط سے ارسلان افتخار کو 34 کروڑ 25 لاکھ روپے دیئے تاہم انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں کسی بھی مقدمہ میں ریلیف حاصل نہیں ہو سکا اور ارسلان افتخار نے انہیں براہ راست مقدمات میں ریلیف دلوانے کی بات نہیں کی جبکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ارسلان کو پیسے کسی اور نے دیئے تو انہوں نے ریاض کو دھوکہ کس طرح دیا ۔ جسٹس خلجی کا کہنا تھا کہ ملک ریاض عدالت سے انصاف خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ منگل کو جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے وکیل ایڈووکیٹ زاہد بخاری نے بتایا کہ ملک ریاض کا ابتدائی بیان جمع کرا دیا گیا ہے تو عدالت نے سٹاف کو ہدایت کی کہ وہ بیان لے کر آئیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے حکم کی تعمیل تو نہیں ہوئی تاہم یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے جواب جمع کرا دیا ۔ اس موقع پر ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق نے کہا کہ یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 160 اور 165 کے تحت چلنا چاہئے اس موقع پر عدالت نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی احمد ریاض کو بلوا کر حاضری لگائی ۔ عدالت نے پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدر غلام نبی یوسفزئی کو طلب کر کے میڈیا کے تحریری قواعد وضوابط کے بارے میں استفسار کیا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملک ریاض ، ارسلان افتخار اور بحریہ ٹاؤن کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سچ جب سامنے آئے گا تو سب کو پتہ چل جائے گا ۔ ملک ریاض کے وکیل نے جواب پڑھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ۔تفتیش کے لئے دیگر اداروں جن میں پولیس ، ایف آئی اے ، اینٹی کرپشن اور نیب کے ادارے موجود ہیں ۔عدالت کمیشن قائم کرے ملک ریاض کے اثاثے کے بارے میں ایف بی آر میں تفصیلات موجود ہیں ۔ زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ عدالت نے ملک ریاض کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کیں لیکن ارسلان کی تفصیلات نہیں ۔ عدالت نے زاہد بخاری کو کہا کہ جمعرات کو ہم نے حکم دیا تھا اس میں کہا گیا تھا ارسلان کو 30 ، 40 کروڑ روپے دیئے جانے کے میڈیا پر سنسز کے بیانات پر کہا تھا کہ ایف بی آر ریکارڈ جمع کرائیں ۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ یہاں پر اکھٹے ہونے کا مقصد یہی ہے کہ سچ کو جانیں کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ جب بھی عدالت کی عظمت پر حرف اٹھے گا ہم ایکشن لیں گے جب یہ پروگرام چلا تو لوگوں نے عدالت پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں ۔ کیا اس میں عدالت کی حرمت کی بات نہیں ۔ زاہد بخاری نے کہا کہ ملک ریاض سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سمیت تمام ججز کا احترام کرتے ہیں اور میں نے عدالت کے حق میں کالم بھی لکھے ہیں پہلے عدالت یہ طے کرے کہ عدالت کی عظمت کا سوال اٹھتا بھی ہے یا نہیں ۔ میں نے یا میرے بیٹے نے ارسلان افتخار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا ۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ مقدمات کی سماعت کے کیا تقاضے ہیں ۔ ملک ریاض کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی عدلیہ یا ججز کی تضحیک نہیں کی ۔ ارسلان نے اپنے تحریری بیان میں خود جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔ جس سے اس نے چیف جسٹس اور عدلیہ کی بدنامی ہوئی ہے ۔ زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ احمد خلیل کا دوست سلمان احمد تھا جس نے ارسلان کا تعارف ملک ریاض کے سٹاف افسر احمد خلیل سے کرایا ۔ ارسلان کی ملک ریاض کی فیملی سے تعلق نہ ہونے بارے موقف کو رد کرتا ہوں ۔ ارسلان نے میرے داماد سے بھتہ لیا ۔ ارسلان افتخار احمد خلیل اور سلمان احمد کا قریبی دوست ہے اس نے ارسلان نے احمد خلیل کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے مقدمات ان کے باپ ( چیف جسٹس ) کے پاس ہیں ان سے مصلحت کرا سکتے ہیں ۔ملک ریاض کا کہنا تھا کہ میں ارسلان کے خلاف ثبوت ان کیمرہ دے سکتا ہوں ۔ ارسلان 2010 ء میں لندن گیا ۔ دوسرا دورہ بھی 2010 ء میں کیا جس کے اخراجات 6 لاکھ 42 ہزار تھے جبکہ کل 34 کروڑ اور 25 لاکھ روپے ارسلان کو سلمان نے دیئے ۔ جواد نے کہا کہ کس نے یہ پیسے ادا کئے ۔ سلمان کیا کاروبار کرتے ہیں ۔ زاہد بخاری نے کہا کہ اس کی تفصیلات پیش کر دی جائیں گی ۔ سلمان برطانوی شہری ہے وہ وہاں پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں ۔ اس کے حوالے سے شواہد عدالت میں جمع کرا دیئے گئے ہیں ۔ زاہد بخاری ملک ریاض نے عدالت سے کوئی ریلیف نہیں لیا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ارسلان نے کس کو یقین دہانیاں کرائیں ؟ زاہد بخاری نے کہا کہ یقین دہانیاں ان کے داماد سلمان کو کروائی گئیں ۔ ارسلان کی ملک ریاض سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ عدالت نے ملک ریاض کو طلب کر کے استفسار کیا کہ ارسلان افتخار نے یقین دہانی ان کو کرائی یا ان کے داماد سلمان کو کرائی تو انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ ارسلان نے یقین دہانیاں احمد خلیل اور سلمان کو کرائیں ۔ ملک ریاض کے بیان کے مطابق ارسلان نے کس طرح ملک ریاض کو براہ راست دھوکہ دیا اس کے خلاف مقدمہ نیب آرڈیننس کے تحت مقدمہ چلنا چاہئے ۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ یہ گندا مواد نہیں۔ جس پر زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے بیان میں کہا گیا کہ صدر وزیر اعظم سیاسی جماعت اس کیس میں ملوث نہیں ہے ۔ کسی نے بھی مجھے اس بارے میں ہدایت نہیں دی ، کامران خان ، حامد میر میرے سے مختلف موقعوں پر ملاقات ہوئی ہے ان کو میں نے یہ شواہد دکھائے جو میں نے عدالت میں پیش کئے ۔ انصار عباسی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ۔ جو انہوں نے شائع کیا ملک ریاض کا کہنا تھا کہ موجودہ موجود ابتدائی جواب حتمی نہیں ہے ۔ میں مزید ثبوت یا بیانات جمع کرانے کا حق محفوظ رکھتا ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ارسلان نے اپنے جواب میں میرے اس انٹرویو کو بنیاد بنایا ہے جو انصاری عباسی نے شائع کیا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا ملک ریاض کے داماد سلمان احمد کے بھی کوئی مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں ۔ زاہد بخاری نے کہا کہ نہیں ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے استفسار کیا کہ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیا عدالت کی جانب سے کوئی رعایت ملی تو زاہد بخاری نے کہا کہ ایسا نہیں ہے ۔ ملک ریاض نے تو چیف جسٹس کے حق میں بات کی ہے ۔ جسٹس خلجی کا کہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ملک ریاض سمیت سب کو انصاف فراہم کریں ۔ زاہد بخاری نے کہا کہ ایک گلہ ہے کہ ایک وکیل کو کیس سے دستبرداری کی اجازت دی ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے اسے دستبرداری کی اجازت نہیں دی ۔ ملک ریاض کے وکیل نے اعتراف کیا کہ ملک ریاض نے کسی بھی مقدمہ میں ریلیف حاصل نہیں کیا ۔ زاہد بخاری نے 2 کراس چیک دکھائے ۔ عدالت نے ارسلان افتخار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں سمیت تمام لوگوں نے اس ادارے کے تشخص کو قائم رکھنا ہے اس پودے کی آبیاری قوم نے اپنے آنسوؤں سے کی ہے ۔ زاہد بخاری کہ اب مرحلہ یہاں پہنچ چکا ہے ریکارڈ کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے کہ معاملہ کس فورم پر جانا چاہئے ۔ اس کے لئے یا تو لارجر بینچ بنایا جائے اگر ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ تو کمیشن تشکیل دے دیا جائے تیرا راستہ یہ ہے کہ جس ایجنسی پر عدالت کو اعتماد ہے تحقیقات اس کے حوالے کر دی یا نہیں ۔ میں کسی ادارے کے بارے میں نہیں کہہ رہا ۔ اس موقع پر عدالت نے ارسلان کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ کمیشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ عدالت جس طرح چاہے کرے جس پر عدالت نے کہا کہ وہ عدالت کی معاونت کریں ۔ ہم اپنی رائے مسلط نہیں کریں گے ۔ عدالت کے سامنے ایف آئی اے ، پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے مقدمات آتے رہتے ہیں ۔ ہم نے ڈی ایف ائی اے کو توہین عدالت نے نوٹس بھی جاری کئے ہیں ۔ ہم کسی ادارے کو گندا نام نہیں دیتے ۔ معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں ۔ ارسلان کے وکیل نے کہا کہ عدالت جوڈیشنل کمیشن بنا دے جو تحقیقات کرے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے ان کی دل شکنی نہیں ہونی چاہئے اس موقع پر ملک ریاض کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کمیشن نہ بنایا جائے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ میں مجھے یہ بات نہیں کہنی چاہیئے لیکن آپ عدالت سے انصاف خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس پر زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ آپ نے پہلے سے ذہن بنا رکھا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اٹارنی جنرل نے باور کرایا کہ یہ ارسلان اور ملک ریاض کا معاملہ ہے عدالت کا نہیں ۔ عدالت نے لارجر بنچ اسی لئے تشکیل نہیں دیا کیونکہ اس میں عدالتی عظمت کی بات نہیں ۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ جہاں تک اس ادارے کے تشخص کی بات ہے ہر بندہ اپنی سوچ کے مطابق اپنے فیصلے کرتا ہے ہم یہاں بیٹھ کر کسی کلیے کے تحت سماعت کرتے ہیں جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ اس نظام کی اچھائی ہی یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنی سوچ لے کر آئی ہے ۔ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے ہم اس چیز کو ملحوظ رکھیں گے ۔ عوام الناس ہی اس ادارے کے بنانے والے ہیں میں متعدد فیصلوں میں لکھ چکا ہوں کہ عوام کی رائے یہ ہے کہ عدلیہ آزاد ہو ۔ عوامی خواہشات کی ہر صورت میں پاسداری کریں گے ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ میرے نزدیک یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے میرے لئے اس کیس کی کوئی حیثیت نہیں اگر میں ادارے کا تحفظ نہ کر سکوں تو میرے بیٹھنے کی ضرورت نہیں ۔ ہم دیکھیں گے کہ اگلے مرحلے میں جانا ہے یا نہیں ۔ عدالت نے کہا کہ اس کیس کی سماعت کل پرسوں رکھ لیتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کے سٹرکچر کے مطابق ناانصافی کا عنصر موجود نہیں ۔ اس کیس میں کافی میٹریل آ چکا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہمارے پاس شواہد موجود نہیں ہیں ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے بہت سے قانون پڑھے ہیں اگر کوئی جرم لگا ہے تو سیکشن 9 احتساب آرڈیننس کے تحت کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ پبلک آفس آرڈر یا کوئی شخص جس نے کرپٹ پریکٹس کی ہے اس کا کیس نیب سنے گی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب اگر شخص پیسے واپس کر دیتا ہے تو ٹھیک ہے ۔ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ بات بہت غلط ہے ۔ جسٹس خلجی غلط بات غلط ہے ۔ نیب کے سیکشن 18 کے تحت کسی بھی ایجنسی کو شامل تفتیش کر سکتی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ادارہ ملک قوم اور میڈیا والوں کا بھی ہے ۔ کل جان کی بات پر ہوئی تھی ۔ آج میں عزت کی بات کردوں ۔ پتہ نہیں ہم قرآن کو کیوں اتنی اہمیت نہیں دیتے جو کہتا ہے کہ عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ سردار اسحاق نے کہا کہ میڈیا ارسلان افتخار کا ٹرائل نہ کرے جس پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ ٹرائل عدالتیں کرتی ہیں ۔ بعدازاں سماعت کل جمعرات تک ملتوی کر دی گئی

تبصرے