لاہور ہائی کورٹ نے ایوان صدر میں سیاسیسرگرمیاں روکنے کے لیے صدر آصف علی زرداری کو 5 ستمبر تک کی مہلت دے دی ہے


لاہور(ثناء نیوز ) لاہور ہائی کورٹ نے ایوان صدر میں سیاسیسرگرمیاں روکنے کے لیے صدر آصف علی زرداری کو 5 ستمبر تک کی مہلت دے دی ہے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے 12 مئی 2011ء کو حکم دیا تھا کہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہ کی جائیں لیکن اس کے باوجود وہاں سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو لاہور ہائی کورٹ میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کر دی گئیں جس پر اب لاہور ہائی کورٹ نے صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں روکنے کے لیے 5 ستمبر تک کی مہلت دی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے صدر زرداری کو ایک عہدہ چھوڑنے کے لئے ایک اور موقع دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد صدر پاکستان کی ذمہ داری ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ صدر کو ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں ترک کرنے کے لیے مزید وقت دیں گے ۔ وقت دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر عدالتی حکم پر عمل نہ کریں ۔ اگر عمل نہ کیا گیا تو عدالت معاملے کا جائزہ لے گی یہ آئینی عدالت ہے اور ملک کے آئینی سربراہ کے حوالے سے معاملہ کا جائزہ لے گی ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل عدالت عالیہ کے تین رکنی فل بنچ نے صدر کے دو عہدوں کے خلاف کیس کی سماعت شروع کی تو عدالت کے روبرو ایڈیشنل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں صدر زرداری کے دو عہدوں سے متعلق عدالت کی جانب سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے بتایا کہ صدر پاکستان کا عہدہ آئینی ہوتا ہے اور کوئی بھی شحض جب اس عہدے پر فائز ہوجائے تو وہ سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتا لیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ابھی تک اپنی پارٹی کا عہدہ نہیں چھوڑا اور دو عہدوں پر بدستور قائم ہیں۔ اس کے علاوہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جو لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کی جانب سے کیے گئے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے لہذا عدالت صدر پاکستان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔ عدالت نے عملدرآمد کے حوالے سے صدر کے پرنسپل سیکرٹری سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے ۔ تین رکنی بنچ نے صدر پاکستان کو فیصلے پر عمل درآمد اور ایک عہدہ چھوڑنے کیلیے ایک اور موقع دیدیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد صدر پاکستان کی ذمہ داری ہے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کردی گئی۔سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست گزار اظہر صدیق کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ ہماری استدعا یہ تھی کہ ایوان صدر پوری قوم کا ہوتا ہے کسی پارٹی کا نہیں ہوتا اس لیے ایوان صدر کو کسی پارٹی کے لیے استعمال کرنا خلاف آئین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر عدالت کے حکم پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور وہ عمل کریں گے ۔ صدر قوم کے پیسے پارٹی کی سرگرمیوں پر خرچ نہیں کر سکتے ۔واضح رہے کہ گزشتہ سال مئی میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اعجاز احمد چودھری کی سربراہی میں فل بینچ نے صدر آصف علی زرداری کے بیک وقت دو عہدے رکھنے کے خلاف درخواست فیصلہ دیا تھا جس میں اس توقع اظہار کیا گیا کہ آصف زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے ایوان صدر میں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کریں گے۔درخواست گزار وکلا نے اپنی درخواستوں میں یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ عدالت کے فل بینچ نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں ترک کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن عدالتی فیصلے کے باوجود صدر مملکت آصف علی زرداری حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی سرگرمیاں ترک نہیں کیں۔درخواستوں میں یہ قانونی نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چار اور توہین عدالت آرڈیننس کی دفعہ تین کے مطابق کوئی بھی حکم ہو اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن صدر اس پر عمل نہیں کر رہے اور نہ ہی صدر نے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر کی جس پر یہ فیصلہ حتمی ہو گیا۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ سماعت پر قرار دیا تھا کہ ان درخواستوں میں اہم نوعیت کے نکات اٹھائے گئے ہیں اس لیے ان درخواستوں پر کارروائی کے لیے بڑا بینچ تشکیل دیا جانا چاہیئے۔خیال رہے کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت پر صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔

تبصرے