وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ملک میں ہر ایک کو اپنے اصل اور حقیقی اثاثے ظاہر کرنے چاہیئیں۔کمزور طبقات کے معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کو ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ ریاست ان طبقات کی سرپرستی کرے گی اور غریبوں کے ہاتھ تھامے گی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ سویلین اخراجات میں کمی کر سکتے ہیں


اسلام آباد(ثناء نیوز ) وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ملک میں ہر ایک کو اپنے اصل اور حقیقی اثاثے ظاہر کرنے چاہیئیں۔کمزور طبقات کے معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کو ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ ریاست ان طبقات کی سرپرستی کرے گی اور غریبوں کے ہاتھ تھامے گی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ سویلین اخراجات میں کمی کر سکتے ہیں۔ قومی اتحاد کی پالیسی کے حوالے سے کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔ محاصل کا 1952 ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔ ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہم سے یہ معلوم کرے کہ وسائل کہاں خرچ ہوئے۔ طاقتور لوگ اور گروپس ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معیشت کو صحیح سمت میں گامزن کر دیا ہے۔ چاہتے ہیں کہ ادھار کم سے کم لیا جائے تا کہ افراط زر میں اضافہ نہ ہو۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی میں شرح کے حوالے سے یک عددی ہدف حاصل نہ کر سکے۔ اقتصادی سروے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاشی و سماجی حالات پر مرتب ہونے والے اثرات شامل نہیں کیے گئے۔ سابقہ اعداد و شمار کو ہی موجودہ اعداد و شمار تصور کیا جائے کیونکہ وزارت خارجہ نے نظر ثانی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔ ملک میں ہر ایک کو اپنے اصل اور حقیقی اثاثے ظاہر کرنے چاہیئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقتصادی سروے کے اجراء کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ مضبوط ، خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ رواں مالی سال کئی لحاظ سے اچھا ثابت ہوا۔ دنیا کے لیے کٹھن حالات ثابت ہوئے۔ تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ عالمی کساد بازاری کے حوالے سے گروتھ متاثر ہوئی اس انداز میں ترقی نہ کر سکے جس کی توقع کر رہے تھے۔ سیکورٹی کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ہماری فوج، پیرا ملٹری فورسز، عوام نے جو قربانیاں پیش کیں ان سب کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔ بین الاقوامی سر مایہ کاری اتنی نہیں ہوئی جوپاکستانی معیشت کا حق تھی۔ بارشوں اور سیلابوں سے مجموعی طور پر تین ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے۔ قومی پیداوار 3.7 فیصد رہی۔ معیشت کو درست سمت میں گامزن کر نے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تین سالوں سے مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے۔ کفایت شعاری سے حکومت چلا رہے ہیں۔ اخراجات کے حوالے سے سختی سے کام لے رہے ہیں۔ افراط زر بڑھنے کے باوجود حکومتی اخراجات میں دس فیصد کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کنزیومر پرائز انڈیکس10.8 فیصد ہے۔ مہنگائی کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔ ہول سیل پرائس انڈیکس11.2 فیصد ہے اسی طرح حساس پرائس انڈیکس ساڑھے آٹھ فیصد ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام ، سیاستدان، سیاسی جماعتیں ، قیادت اور وہ جماعتیں جنہوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے پریشان ہیں۔ تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے جب سب اس سے پریشان ہیں تو اس میں کمی کے لیے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنا ہو گا۔ محاصل بڑھانے ہوں گے۔ صاحب حیثیت لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے ہوں گے۔ عوام کے معاشی بوجھ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی عوام کی منتخب حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو ۔ مجبوراً اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ بیرونی وسائل پر کم سے کم انحصار کیا جائے تا کہ عوام صحیح معنوں میں آزادی، خود مختاری عزت و وقار کے ساتھ کردار ادا کر سکیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ طاقتور لوگ ٹیکسوں کا بوجھ برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی دس فیصد سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ محاصل میں تاریخی 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1952 ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کی تقسیم کے فارمولے کے تحت 65 سے 70 فیصد تک مالی وسائل صوبوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ 30فیصد وفاق کے پاس رہ جاتے ہیں جس میں قومی، دفاع، وفاقی حکومت ، قرضوں کی ادائیگیاں، جاری اخراجات کے لیے انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ملک کی سلامتی کے حوالے سے رسک لیا ہے نہ لیں گے اور بنیادی دفاع کی پالیسی کے حوالے سے کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔ کمزور طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ دستیاب وسائل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 300 ارب روپے جاری کر دیئے گئے ہیں۔ تمام پاکستانیوں کو ترقی کے مساوی مواقع دینا چاہتے ہیں کیونکہ تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ عوام ناخوش ہو ں گے تو یکجہتی بھی متاثر ہو گی۔ کمزور طبقات کی ریاست سرپرستی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تعریف کی ہے ۔ فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کھاد پر پچاس ارب روپے کی سبسڈی دی ہے اور پاکستان گندم بر آمد کر نے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ اچھی اقتصادی صورتحال کا دعویٰ تو نہیں کرتا تاہم معیشت کو درست سمت میں گامزن کر دیا ہے۔ حالات اتنے بھی برے نہیں ہیں جس طرح پیش کیے جا رہے ہیں۔ دقتیں ضرور ہیں ۔ بجلی کے بحران کی اصل وجہ ماضی کے دس سالوں کے دوران منصوبے نہ بنانا ہیں اور صورتحال اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ 82 فیصد بجلی تیل سے پیدا ہو رہی ہے۔ ملک میں وفاق اور صوبوں میں پانچ حکومتیں ہیں سب کو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا چاہیے کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومت نے بجلی پر 1002 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔ صوبائی حکومتوں ، اداروں اور صارفین نے تین سو ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ بجلی کے محکموں کی نجکاری تو نہیں کرنا چاہتے تاہم بورڈ آف گورنر ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کی ہے۔ ماہرین کو لگایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر ندیم الحق نے قوم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تھرکول منصوبے کی کامیابی کے لیے تمام درکار وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ ہم ڈاکٹر ثمر مبارک کے ساتھ ہیں انہیں جیسے جیسے پیسوں کی ضرورت ہو گی ادا کریں گے۔ چیف اقتصادی ایڈوائزر نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاشی و سماجی نقصانات کے حوالے سے دفتر خارجہ نے نئے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ سابقہ اعداد و شمار کو ہی نئے اعداد و شمار تصور کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر سال اپنے اثاثے ظاہر کرتا ہوں اور اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس بھی دیتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ سرکاری نوکریاں اتنی نہیں ہیں کہ ہر ادارے کا منہ کھول دیں اور سب کو رکھ لیں۔ اس بارے میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جامع پالیسی بنائی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ عوام کے مسائل کے حوالے سے دکھ درد جنہیں ہوتا ہے وہ عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں اس حوالے سے کسی اور کو آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ آواز اونچی کر کے یا جلوس نکال کر یہ ثابت نہ کیا جائے کہ عوام کا دکھ و درد ان سے زیادہ ہے
طاقتور لوگ ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں: عبدالحفیظ شیخ

تبصرے