سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بد امنی کیس کی سماعت کے دوران عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدر وزیر اعظم سے بات کر کے بلوچستان میں امن امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے سیکرٹری داخلہ و دفاع کا مشترکہ اجلاس بلائیں


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بد امنی کیس کی سماعت کے دوران عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدر وزیر اعظم سے بات کر کے بلوچستان میں امن امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے سیکرٹری داخلہ و دفاع کا مشترکہ اجلاس بلائیں ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اجلاس میں مسئلے کا حل کر کے واضح موقف عدالت میں پیش کیا جائے ۔ عدالت نے وزیر اعظم گیلانی کے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزیر اعظم کو صوبے کی صورت حال بارے آگاہ کریں عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ عدالت کے پاس وفاق کو اس مقدمہ میں اٹارنی جنرل کی جگہ نیا وکیل مقرر کرنے کے لیے کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے جبکہ رضا کاظم نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت نوٹس جاری کرنے پر زور دیا ہے ۔ عدالت ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے تاہم تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فی الحال ایسا حکم جاری نہیں کیا جا رہا تمام لوگ حالات کا ادارک کریں ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری وفاق کی جانب سے وکیل کی نامزدگی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں اور وکیل کو پابند کیا جائے کہ وہ عدالت کی معاونت کریں۔جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ بار کی جانب سے دائر مقدمہ کی سماعت کی ۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سپریم کورٹ رجسٹری میں مقدمات کی سماعت جاری تھی کہ تین لوگوں کو اٹھا لیا گیا اور جن تین افراد کو بازیاب کرانے کا حکم عدالت نے دیا تھا ان کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لاشیں ملیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی جی ایف سی عدالت کو بتائیں کہ ان افراد کے قتل کا ذمہ دار کون سے ایف سی اہلکار ہیں ورنہ آئی جی ایف سی کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے عدالت نے آئی جی ایف سی کی عدالتی نوٹس کے باوجود عدالت میں عدم موجودگی پر اظہار برہمی کیا تو حساس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی ایف سی ایران گئے ہوئے ہیں اس لیے پیش نہیں ہو سکے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں شہریوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے اور آئی جی ایف سی ایران گئے ہوئے ہیں ۔ان کو کل ہی بلائیں ۔ اس موقع پر جسٹس خلجی عاف حسین نے کہا کہ وہ اس رات سو نہیں سکے جس رات انہیں اطلاع ملی کہ ان تین افراد کو قتل کر دیا گیا ہے جن کے مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں ہو رہی تھی کیا ہمیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو من مرضی نہیں کرنے دیں گے ۔ چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ صادق عمران نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ دو افراد کے قتل میں ایف سی ملوث ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت ایف سی والوں کی تنخواہیں بند کرنے کا حکم دے جس پر راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ اگر عدالت ایسا حکم جاری کرنا چاہتی ہے تو کر دے لیکن ایسا کرنے سے قبل ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو قتل کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اس کیس میں دلچسپی کا اندازہ اسا بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹارنی جنرل عدالتی نوٹس کے باوجود عدالت میں موجود نہیں ہیں اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایف سی پولیس کی مدد کے لیے بلوائی گئی تھی لیکن یہاں پر معاملہ ہی اور ہے اٹارنی جنرل کو کوئٹہ میں سماعت کے دوران طلب کیا تھا لیکن انہوں نے زحمت نہیں کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت جس سے بھی استفسار کرتی ہے وہ لا علمی کا اظہار کرتا ہے جبکہ صوبائی حکومت بے بسی کا اظہار کر کے کیا پیغام دینا چاہتی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری داخلہ ایف سی کی کارکردگی کے ذمہ دار ہیں تین افراد کے قتل کا مقدمہ آئی جی ایف سی کے خلاف درج ہونا چاہیے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر صوبائی حکومت نے اقدامات نہ کئے تو عدالت کرے گی ۔ بلوچستان پاکستان کا اہم حصہ ہے جہاں شہریوں کو سرعام قتل کیا جا رہا ہے اور حکومت بے بسی کا اظہار کر رہی ہے ۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ اضلاع میں ایف سی ڈپٹی کمشنر کے ما تحت ہوتی ہے جس پر جسٹس خلجی عاف حسین کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کو تو ایف سی والے اپنے قلعے میں داخل نہیں ہونے دیتے صرف کاغذی طور پر ایف سی ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس ایک منٹ بھی عہدے پر رہنے کے اہل نہیں ہیں ۔ یہاں حالت یہ ہے کہ لوگ مر رہے ہیں اور افسران عدالت میں پیش نہیں ہوتے ۔ بلوچستان جل رہا ہے کسی کو پرواہ نہیں ہے انہو ںنے کہا کہ لوگ ڈرتے ہوئے مقدمات درج نہیں کرواتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مقدمات درج ہونے پر ان کے پیارے زندہ نہیں رہیں گے ان کی لاشیں ملیں گی ۔عدالت نے اٹارنی جنرل ، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو نوٹسسز بجھوائے جانے پر عدالت میں عدم موجودگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور سیکرٹری داخلہ کو عدالت میں طلب کیا ۔ دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ علم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار شہید ہو رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں قتل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے ۔ ملکی خدمات کا مطلب یہ نہیں کہ آئین پر عمل نہ کیا جائے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ صوبائی ہوم سیکرٹری بلوچستان اسلام آباد میں بیٹھے ہیں ان کو صوبہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ تکنیکی بنیادوں پر معاملات پس پشت ڈالے جا رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس بلوچستان سے استفسار کیا کہ تین افراد کے قتل پر کیا کارروائی کی گئی ہے اس سے بڑی لاقانونیت کیا ہو گی کہ جن کو بازیاب کرانے کا حکم دیا گیا انہیں قتل کردیا گیا ۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی میں بات کرنے سے روک دیا ۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے تحقیقاتی رپورٹ میں عدالت پیش کی تو عدالت نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کی رپورٹ غیر تسلی بخش ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی رپورٹ درست نہیں ہے اس رپورٹ میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ دس لوگ ادھر سے اور دس لوگ ادھر سے آئے اور اجلاس ہوا جس میں ایک سٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی گئی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری دفاع کو عدالت میں پیش ہونے کے لئے نوٹس دیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئیں ۔ عدالتی حکم پر سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر عدالت میں پہنچے تو چیف جسٹس نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی مہربانی کہ آپ نے یہاں آنے کی تکلیف کی ۔ یہ بتائین کہ ایف سی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور اس پر شہریوں کو قتل کیے جانے کے الزامات ہیں کیوں نہ سیکرٹری داخلہ کو معطل کر دیا جائے ۔ عدالت صبح سے بیٹھی ہے اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں کیوں نہ ان کی جگہ کسی اور کو رکھ لیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری یہاں آئے ہوئے ہیں کیونہ ان سے کہیں کہ نیا اٹارنی جنرل متعین کر دیں ۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ۔ حالات ٹھیک کرنے کے لیے ایف سی کو محدود مقاصد کے لئے بلایا جائے اور اختیارات پولیس کو دیئے جائیں ۔ بلوچستان میں آئین پامال ہو رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے یہ بھی استفسار کیا کہ وہ اس کیس میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے ۔ سیکرٹری داخلہ کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی تو عدالت نے ان کی رپورٹ کو بھی مسترد کر دیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل پیش ہوئے اب سیکرٹریز کو خود پیش ہونا پڑے گا ۔ اس پر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ وہ یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں لائیں گے چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اٹارنی جنرل کو دلچسپی نہیں تو وزیر اعظم سے کہیں کہ ہر کیس کا الگ وکیل مقرر کریں ۔ آئین کو دیکھ لیں کہ کیا یہ سسٹم کا بریک ڈاؤن نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اب تو آئین اور آرٹیکل چھ سے انحراف کی باتیں ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ ایجنسیوں کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایف سی یونیفارم پہن کر دہشت گرد کارروائی کر رہے ہیں اس پر جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس معاملہ کی تحقیقات کیں کیا اندر کوئی غدار تو موجود نہیں ۔ دوران سماعت ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کوبتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ چیف سیکرٹری نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ سماعت پر تمام لاپتہ افراد کو سپریم کورٹ کے روبرو پیش کردیا جائے گا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ بلوچستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہے ۔ 71 کا سانحہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود کسی کو احساس نہیں ہے ۔ کوئٹہ میں ججز کو بھی ڈرایا جا رہا ہے ۔ عدالت نے دوران سماعت مزید لاپہ افراد کی جانب سے مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست بھی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کہا کہ درخواست کی سماعت 4 جون کو آئندہ سماعت کے دوران کیا جا ئیگا۔ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 4 جون تک ملتوی کردی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی صوبائی وزراء ظفر اللہ ظہری اور عاصم کرد عدالت میں موجود رہے بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کسی معاملے پر ناکام نہیںہوئی ۔ بلوچستان پرامن صوبہ ہے البتہ چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میری مرضی ہے جب بلوچستان جاؤں اور اسلام آباد آؤں کون پوچھے گا ۔ان کا کہنا ھا کہ میں بلوچستان کا نمائندہ ہوں صحافیوں کا نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ایف سی ان کے ماتحت نہیںہے

تبصرے