سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کو مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کے مالکان کی جانب کروڑوں روپے دیئے جانے کے خلاف لیے گئے از خودد نوٹس کیس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ان کے بیٹے علی احمد ریاض سمیت دیگر ذمہ داران کو حکم دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کو مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کے مالکان کی جانب کروڑوں روپے دیئے جانے کے خلاف لیے گئے از خودد نوٹس کیس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ان کے بیٹے علی احمد ریاض سمیت دیگر ذمہ داران کو حکم دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے۔عدالت نے نجی ٹی وی کے اینکرز کی جانب سے کیے گئے پروگرامات کے سکرپٹ اور سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بحریہ ٹاؤن کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمہ سننے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی دفعہ 4 کے تحت چیف جسٹس اس مقدمہ کو سننے والے بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں کوئی حکم جاری کرنا چاہیے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے موقف پر بھی واضح حکم جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کہاں ہیں جس پر ملک ریاض کے سٹاف آفیسر کرنل(ر) خلیل نے بتایا کہ وہ میڈیکل چیک کے لیے برطانیہ گئے ہوئے ہیں تو جسٹس خلجی عارف حسین نے استفسار کیا کہ وہ کب واپس آئیں گے تو کرنل خلیل کا کہنا تھا کہ پیرکے روز آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا نوٹس رات کو 2 بجے ملا تھا انہوں نے ملک ریاض سے رابطہ کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹا موٹا معاملہ نہیں ہے ہر چیز کھل کر عدالت کے سامنے آئے گی ملک ریاض کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ضابطہ اخلاق کے مطابق چیف جسٹس اس مقدمہ کو نہیں سن سکتے کیونکہ اس میں ان کا ذاتی مفاد شامل ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا سامنے کھڑا ہے مجرم ہو گا تو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔انصاف سب کے لیے ایک جیسا ہو گا اگر ارسلان افتخار ملزم پایا گیا تو سزا سنائی جائے گی یہ کسی کا ذاتی معاملہ نہیں ہے یہ ملک کے ادارے کا معاملہ ہے کوئی کسی کی ساکھ خراب کر رہا ہے تو سختی سے نمٹا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت نے آپ کا اعتراض نوٹ کر لیا ہے اور ججز اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں آپ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے ادارے سے زیادہ کسی چیز کو اہمیت نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ ہم بڑے بڑوں کو سزائیں دیتے ہیں۔چیف جسٹس کا بیٹا کیا چیز ہے۔ ہم یہاں انصاف کرنے کی قسم کھا کر بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا چیف جسٹس کے بیٹے کو سزا ہو گی۔ سچ سامنے آنے پر انصاف ضرور ہو گا۔ میرے بیٹے سمیت کسی رشتہ دار کو بھی بد نام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس مقدمہ میں لمبی تاریخ نہیں دیں گے۔ اگر کوئی ریکارڈ ہے تو سامنے لایا جائے ملک ریاض عدالت بھی پیش ہوں ورنہ بحریہ ٹاؤن کے دفاتر سیل اور اکاؤنٹس منجمند کر دیں گے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ملک ریاض کی غیر موجودگی میں جو ذمہ داران ہوتے ہیں وہ ساڑھے 11 بجے عدالت میں پیش ہوں۔عدالت نے نجی ٹی وی کی رپورٹس کو ہدایت کی کہ وہ ٹی وی کے اینکر حامد میر سے کہیں کہ اپنا بیان عدالت میں جمع کرائیں اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ادارے کی ساکھ ملک کی ساکھ ہے اور ملک کی ساکھ قوم کی ساکھ ہے ہمارے سامنے عہدوں اور فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ادارے مقدم ہیں۔ جسٹس خلجی کا کہنا تھا کہ لوگ دیکھیں گیے کہ انصاف کیسے ہوتا ہے کسی سے ہماری مخالفت نہیں ہے میں نے تو ارسلان کو صرف ایک بار دیکھا ہے۔ چیف جسٹس نے ملک ریاض کے سٹاف آفیسر سے استفسار کیا کہ ارسلان کے خلاف بحریہ ٹاؤن کے پاس کیا مواد موجود ہے تو انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے اگر آپ ریکارڈ نہیں دیتے تو آئی جی اسلام آباد کو کہیں گے کہ وہ کیس کے ریکارڈکو ضبط کر کے عدالت میں پیش کریں۔عدالت نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کے بعد اگر بڑی رقم نکلوانا پڑے تو کون یہ فرائض سر انجام دیتا ہے تو سٹاف آفیسر کا کہنا تھا کہ 10 افراد ایسا کرنے کے مجاز ہیں جن میں کموڈور الیاس ، ونگ کمانڈر ایاز ،جنرل شوکت سلطان ، جنرل احتشام سمیت بریگیڈیئر احمد، مریم رحمن اور دیگر شامل ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ ریٹائرڈ آفیسران ہیں یا حاضر سروس تو سٹاف آفیسر کا کہنا تھا کہ یہ ریٹائرڈ آفیسران ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کا بیٹا علی ریاض کہاں ہے تو سٹاف آفیسر کا کہنا تھا کہ وہ علاج کے لیے لندن میں ہیں عدالتی وقفے کے بعد مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو حامد میر نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ارسلان افتخار کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تاہم بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ان کی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کچھ دستاویز ات انہیں دکھائی تھیں تاہم ویڈیو نہیں دکھائی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت ایک بار پھر ایک بجے تک ملتوی کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے دس ذمہ داران کو پیش ہونے کی ہدایت کی ۔مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا بحریہ ٹاؤن کے بورڈ آف گورنر کے ممبران میں ملک ریاض، احمد علی ریاض اور وینا ریاض شامل ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے آفیسران عدالت میں پیش ہوئے تاہم ملک ریاض کے سیکرٹری عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے آفیسران سے استفسار کہا کہ وہ کون سے جرنل ہیں جو لوگوں میں 40,30 کروڑ روپے بانٹتے ہیں اس حوالے سے جو بھی ریکارڈ ہے عدالت میں پیش کیا جائے تو تمام آفیسران نے کہا کہ انہیں اس بارے میں علم ہی نہیںہے انہیں تو اخبارات میں خبروں سے اس بارے علم ہوا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ عدالت کو بد نام کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اس میں کسی کو بھی سزا ہو سکتی ہے عہدے یا منصب کی اس ادارے کے سامنے کو اہمیت نہیں ہے ملک کے چیف جسٹس کا معاملہ ہے ہم کسی بھی حد تک جا ئیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹی وی کے اینکرز پروگرامات ضرور کریں مگر اداروں کے وقار کا خیال رکھا جائے ایسے پروگرامات نہیں ہونے چاہیں جن سے اداروں کی بدنامی ہو عدالت کسی فرد کی توقیر کو ادارے کی توقیر پر فوقیت نہیں دیگی۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملک ریاض کو آئی جی اسلام آباد کے ذریعے نوٹس دیئے گئے تاہم وہ پیش نہیں ہوئے ایس پی پولیس نے بتایا کہ ملک ریاض دوبئی چلے گئے ہیں جبکہ سٹاف آفیسر کے مطابق وہ لندن میں ہیں کوئی بھی ذ مہ دار عدالت میں پیش نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ ملک ریاض کے پرنسپل سٹاف آفیسر بحریہ ٹاؤن اور ارسلان افتخار کے حوالے سے موجود تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے چیئرمین سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ آج جمعرات کو بحریہ ٹاؤن کی اصلی فائل عدالت میں پیش کریں تاکہ بحریہ ٹاؤن کے بورڈ آف گورنر کو واضح حکم دیا جا سکے۔ عدالت نے نجی ٹی وی کے اینکرز کے پروگرامات کیپٹل ٹاک اور آج کامران خان کے سکرپٹ طلب کرتے ہوئے نجی ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو کو ہدایت کی کہ وہ واشنگٹن میں اپنے صحا فی شاہین صہبائی کے انٹرویو کے ا قتسا بات عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے حامد میر کے بیان کی کاپیاں تمام متعلقہ فریقین کو دینے کی بھی ہدایت کی بعدازاں مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے