سپریم کورٹ نے انتخابی اخراجات سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی انتخابی سرگرمیوں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی پر نظر رکھے اور و انتخابی سرگرمیوں اور جلسے جلوسوں کی کڑی نگرانی کی جائے


اسلام آباد(ثناء نیوز ) سپریم کورٹ نے انتخابی اخراجات سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی انتخابی سرگرمیوں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی پر نظر رکھے اور و انتخابی سرگرمیوں اور جلسے جلوسوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ ا لیکشن کمیشن کی طرف سے کبھی بھی انتخابات میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پولنگ سٹاف میں صوبائی حکومتوں کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کی بجائے وفاقی اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نیانتخابی اخراجات کے خلاف ورکرز ُپارٹی کی جانب سے دائر مقدمہ و دیگر درخواستوں کا فیصلہ سنایا۔68صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا ہے اور انہوں نے جمعہ کو عدالت میں پڑھ کر سنایا۔فیصلے میں الیکشن کمیشن کو انتخابی امیدوار سے پولنگ کے روز ووٹروں کو پولنگ سٹیشن پر لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے اخراجات سے متعلق بھی تفصیلات طلب کرنے کو کہا گیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل سترہ کے تحت ہر شخص کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق ہے اور الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی شخص کو بھی اس کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ گھر گھر جاکر ووٹروں کے اندارج اور ان کی تصدیق کے عمل کو یقینی بنائے اور اس ضمن میں فوج اور ایف سی کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔انتخابی اخراجات سے متعلق درخواستیں ووکرز پارٹی کی طرف سے عابد حسن منٹو اور حکمراں اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ قاف کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور دیگر افراد کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انتخابات کے دوران اٹھنے والے اخراجات سے متعلق قانون موجود ہے لہذا ان قوانین پر عمل درآمد کروایا جائے۔فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کبھی بھی انتخابات میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پولنگ سٹاف میں صوبائی حکومتوں کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کی بجائے وفاقی اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔فیصلے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ پولنگ سٹیشنز ووٹروں کے گھروں سے دو کلومیٹر سے زیادہ دوری پر نہ ہوں۔فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ میں ہونے والی بحث کی روشنی میں درخواست عنوان بالا کو درجِ ذیل سفارشات ، اعلانات اور احکامات کے ساتھ نمٹایا جاتا ہے۔ انجمن سازی کی آزادی جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 17میں بیان کیا گیا ہے کہ ریاست ہر فرد کو ایک بنیادی حق عطا کرتی ہے کہ وہ ریاست کی سیاسی حکمرانی میں حصہ لے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کے ذریعے آئینی منشور کو مضبوط کرے، تحفظ فراہم کرے، اجتماع کی آزادی (آرٹیکل 16) اور آزادی اظہار (آرٹیکل 19) آئینی حکم کی ضرورت کا مقصد پورا کرتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کے اصولوں کو ماننے کی ضمانت اور ہدایات دیتے ہوئے کہ ’’ریاست اپنی طاقت اور اختیارات اپنے منتخب شدہ نمائندگان کے ذریعے استعمال کرے گی‘‘ آئینِ پاکستان ہدایت دیتا ہے کہ حکمرانی کا اختیار ایک نمائندہ اور جمہوری حکومت کے ذریعے استعمال کیا جائے۔ اس اختیار کو عطا کرتے وقت پختہ عہد کو مدِ نظر رکھا گیا ہے ’’ جمہوریت کا تحفظ‘‘ اور اسی لئے اسے بنیادی اقدار میں سے ایک تصور کیا جاتاہے ۔ مقننہ کے اختیارات اور کام کے تعین کے سلسلے میں آئین کا پارٹ IIاور IIIجمہوریت کو مضبوط کرتاہے جیسا کہ عوام کا منتخب شدہ نظام اور ایک بنیادی آئینی حکم چلانا۔عدالت کا کہنا ہے کہ آئینِ پاکستان الیکشن کمیشن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ الیکشن کا انتظام کرے اور کروائے اور ایسے تمام ضروری اقدامات کرے ، یہ یقینی بنائے کہ الیکشن ایماندارانہ ، صاف و شفاف اور قانون کے مطابق ہوں اور بدعنوان عادات کا قلع قمع کر ے لیکن بدقسمتی سے اس منشور پر ماضی میں مناسب طریقے سے مکمل عمل نہیں کیا گیا۔ تمام عوامی اختیارات ایک متبرک اعتماد ہیں جن کا استعمال منصفانہ ٹھیک ٹھیک، دیانتدارانہ اور قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جہاں بھی کسی عوامی مقتدر یا اہل کار کو صوابدیدی اختیار حاصل ہوتا ہے اس کا استعمال مقصد کے حصول کی خاطر جائز، آزادانہ، ایماندارانہ، منصفانہ اور متبرک اعتماد سمجھ کر کیا جائے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عوامی نمائندگی کا ایکٹ 1976الیکشن کمیشن کو ذمہ داریاں اور اختیارات عطا کرتا ہے کہ وہ الیکشن پر اخراجات کو باقاعدہ کرے، جرائم کے بارے میں سزائیں دے اور اس سے متعلق شرائط کو توڑنے کی صورت میں تمام الیکشن کے تنازعات کا فیصلہ کرے، الیکشن کو کالعدم قرا ر دینا وغیرہ۔عدالتی فیصلے کیمطابق مذکورہ الیکشن کے معاملات اور طریقۂ کار الیکشن کمیشن میں قابلِ سماعت ہے اور اسے آئین اور قانون کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اس لئے اس کی آئینی حیثیت اور دوسرے الیکشن قوانین موجودہ کاروائی سے متعلقہ نہیں ہیں صرف سخت پابندی کی ضرورت ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ مندرجہ بالا کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم درجِ ذیل قراردیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت تمام الیکشن قوانین عوامی نمائندگی کے ایکٹ ، عوامی نمائندگی اور دوسرے قوانین/قوائدو غیرہ پر سختی سے عمل کروائے ۔الیکشن کروانے کے بارے میں آئینی ضرورت ہے کہ شفاف، آزادانہ، ایماندارانہ، صاف اور قانونی تقاضوں کے مطابق الیکشن کمیشن کو حاصل شدہ تمام اختیارات کو احسن اور مثالی انداز میں استعمال کرے ۔الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف الیکشن سے متعلق غیر قانونی کاموں پر نظر رکھے(انتخابی مہم میں مالی حدود کی خلاف ورزی وغیرہ) یا بدعنوانیاں(رشوت وغیرہ) بلکہ اختیار دیا جاتا ہے کہ الیکشن اپنی سرگرمیوں پر نظرِ ثانی کرے بشمول جلسے، جلوس، لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال وغیرہ، شفافیت کے معیار پر ان کے اثرات، انصاف اور دیانتداری ان پر الیکشن کو پورا کرانا چاہئیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ بھی اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کی روح، شفافیت، منصفانہ الیکشن کروانے کیلئے حفاظتی اقدامات کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو یقینی بنانے کیلئے تمام اقدامات کرے۔ الیکشن کمیشن کو قوانین بنانے کا اختیار دیا جاتا ہے تاکہ یہ یقین ہو کہ الیکشن شفاف ، دیانتدارانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور بدعنوانی کی عادات کی حوصلہ شکنی ہو۔ عدالت نے کہا ہے کہ رائے دہندگان کو گاڑیوں کے ذریعے پولنگ اسٹشینز پر لے جانا اور انتخابی کیمپس قائم کرنا ہمارے سیاسی کلچر کی عمومی روایات ہیں یہ معاملہ ہر ایک کے علم میں ہے کہ ان سر گرمیوں پر بہت سے اخراجات آتے ہیں ۔ لیکن حیران کن طور پر الیکشن کمیشن نے ماضی میں ان سر گرمیوں کر روکنے کے لیے کو ئی اقدامات نہیں کیے۔ اس لئے ہم الیکشن کمیشن کو ہدایت کر تے ہیں کہ وہ ان سرگرمیوں پر ہونے والے تمام اخراجات کا حساب لے خواہ یہ رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنز پر لے جانے کیلئے گاڑیوں پر، یا انتخابی کیمپس قائم کرنے پر یا ووٹرز کو کھانا دینے پر یا پرچیاں جاری کرنے پر خرچ ہوں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس روایت پر قابو پانے کیلئے، ہمارے نقطہ نظر کے مطابق، الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے دن سے ہی انتخابی اخراجات کا جائزہ لینا چاہئے۔ ایک امیدوار کو انتخابات کے اختتام کے فوری بعد اپنے اخراجات کا حساب دینا چاہئیے ۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ ڈیکلیئریشن فارم میں درج ذیل مندرجات ہونے چاہئیں:- انتخابی اخراجات پورے کرنے کیلئے میں نے اکاؤنٹ نمبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بینک میں (جس میں شیڈولڈ بنک کا نام معہ برانچ ہو گا) کھلوایا ہے اور اس میں انتخابی اخراجات کیلئے مجوزہ رقم جمع کروا دی ہے۔ii) تمام انتخابی اخراجات مندرجہ بالا اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم سے کئے جائینگے۔(iii)انتخابی اخراجات کیلئے مندرجہ بالا اکاؤنٹ کے علاوہ کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ سے اخراجات نہیں کئے جائینگے۔ (بینک سٹیٹمنٹ کی کاپی ریٹرن کے ساتھ منسلک کی جائے گی)۔(g)الیکشن کمیشن امیدواروں کے ساتھ میٹنگز کرے اور انہیں متعلقہ قوانین اور قواعد کے بارے میں آگاہ کرے۔ اور انتخابی عملے کا تعین کر کے ان امیدواروں سے ہفتہ وار انتخابی اخراجات کی فہرست حاصل کرنے کا کہے اور وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں کا معائنہ بھی کرے ۔ انتخابی اخراجات سے متعلق تمام امور جی ایس ٹی، رجسٹرڈ فرمز/اشخاص کے ساتھ ہونے چاہئیں۔(h)رائے دہندگان کی سہولت کیلئے پورے ملک میں پولنگ اسٹیشنز کی تعداد کو مناسب حد تک بڑھایا جائے تاکہ پولنگ اسٹیشنز رائے دہندگان کی رہائش سے دو کلومیٹر سے زائد فاصلے پر نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کو دی گئی تجاویز کو مدِ نظر رکھنا چاہئے جس میں رائے دہندگان کو سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں امیدواروں کو انتخابات کے دن کیلئے کرایہ کی یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی اجازت نہ دی جائے۔ جہاں ٹرانسپورٹ کے انتظامات الیکشن کمیشن نے کئے ہوں تو ان کے راستوں کی تشہیر عوام کی اطلاع کیلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر وسیع پیمانے پر کی جائے۔ (i)جہاں تک رائے دہندگان کو پرچی حوالے کرنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کومطلوبہ معلومات مہیا کرنے کیلئے دوسرے ذرائع استعمال کرے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لئےROPAکی دفعہ 84 پہ سختی سے عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز کے نزدیک انتخابی دفاتر کے قیام پر فی الفور پابندی لگائی جانی چاہئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کو ان کے ووٹ کا اقتباس ووٹر لسٹ سے الیکشن کے انعقاد سے کم از کم سات دن قبل بذریعہ ڈاک ایک گھر میں رہنے والے ایک یا زیادہ اشخاص کے نام روانہ کرنے کا انتظام کرے یا ڈاک کے اخراجات بچانے کیلئے وہ اقتباسات یوٹیلیٹی بلوں کے ساتھ منسلک کرے۔(j)کس طرح کی انتخابی مہم کی سرگرمیوں کی اجازت دی جانی چاہئے جو کہ ایک طرف تو انتخابی مہم کا مقصد پورا کریں اور دوسری طرف عام آدمی کی پہنچ میں بھی ہوں اس سلسلہ میں درخواست دہندگان نے کچھ سرگرمیاں تجویز کی ہیں جیسا کہ گھر گھر جا کر Campaignکرنا ، منشور کی تشہیر ، ریاستی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر راغب کر نا، امیدواروں اور ووٹرز کا بحث مباحثہ وغیرہ شامل ہیں، ROPAاور دوسرے متعلقہ قوانین نے ان سرگرمیوں کی اجازت قانون کی نظر میں دی ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان سرگرمیوں کی میرٹ کے مطابق حوصلہ افزائی کر نی چاہئے۔(k) صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومت کے ملازمین کی بجائے وفاقی حکومت، خودمختار تنظیموں/اداروںکے ملازمین کو پولنگ اسٹیشنز پر تعینا ت کیا جائے۔ (l)جہاں تک کمپیوٹرائزڈ بیلٹنگ(Balloting)کو متعارف کروانے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے سے ہی اس پر کام کر رہا ہے۔ اس لئے ہم توقع کرتے ہیں کہ مناسب وقت پر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کئے جائیں گے۔ m)) صاف ،شفاف اور منصفانہ انتخابات کے مقصد کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن کو فی الفور قابلِ بھروسہ اور آزادانہ اداروں کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی درست تیاری اور نگرانی کو یقینی بنانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ رائے دہندگان کی فہرستوں کا گھر گھر جا کر جانچ کرے اور اس تجدید اور نگرانی کے کام کی شفافیت سے تکمیل کیلئے ، اگر ضروری ہو تو فوج اور فرنٹئیر کور کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ (n)انتخابی تنازعات کو فی الفور حل کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کیلئے تصحیحی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی اخراجات پر الیکشن قوانین سے مکمل آگاہی رکھنے والے وکلاء کا پینل بنانے پر غور کرے جو کہ معاشرہ کے مظلوم طبقہ کو مفت قانونی خدمات فراہم کرے۔ (o)الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام رائے دہندگان کی انتخابات میں شرکت ہو اور اس سلسلہ میں پاکستان میں ووٹ ڈالنے کو لازمی بنانے کیلئے جتنی جلدی ممکن ہو تمام ضروری اقدامات کئے جائیں۔(p) “First Past the Post”طریقہ انتخاب کے تحت ضروری نہیں کہ جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی مکمل اکثریت حاصل ہو اور اس طرح ایسا امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت کی حمایت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح FPTPطریقہ انتخاب اکثریت کے اصول کی نفی کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایسے طریقے اور ذرائع دریافت کرے اور انتخابات کا مناسب طریقہ سے تعارف کروائے جس میںRun off Election اور None of the above optionsجیسی تجاویز بھی شامل ہوں۔ درجِ بالا بحث کی روشنی میں لوگوں کی صحیح نمائندگی ہو اور اکثریت کا اصول اپنا یا جائے۔(q)درجِ بالا مختلف تجاویز پر نقطہ نظر میں اتفاق ہے۔ اس لئے ہم الیکشن کمیشن کو حکم دیتے ہیں کہ قوانین مرتب کرے اور ہدایات جاری کرے تاکہ ان اقدامات کو قانونی تحفظ ہو، ان پر عمل درآمد ہو تاکہ شفاف ،آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا حتمی مقصد حاصل ہو سکے۔ 

تبصرے