سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف مبینہ کرپشن کیس کی سماعت آج( منگل) تک ملتوی کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا ابتدائی بیان طلب کر لیا ہے جبکہ ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے


اسلام آباد (ثناء نیوز ) سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف مبینہ کرپشن کیس کی سماعت آج( منگل) تک ملتوی کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا ابتدائی بیان طلب کر لیا ہے جبکہ ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ ارسلان افتخار کے تحفظ کے لیے سیکرٹری داخلہ سے کہیں کہ وہ ارسلان کو ہر ممکن تحفظ فراہم کریں۔عدالت نے چیئرمین ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ ملک ریاض کی انکم ٹیکس ریٹرنز کا مکمل ریکارڈ آج پیش کریں۔ارسلان افتخار کیس کی سپریم کورٹ سماعت سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی ۔ بینچ جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس عارف خلجی پر مشتملتھا ، دوران سماعت جسٹس جوادایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملک میں سوائے اس کیس کے کوئی اور بات نہیں ہورہی، یہ بہت اہم کیس ہے.دوران سماعت ایک موقع پر ارسلا ن افتخار نے عدالت سے کہا کہ مجھے 5 منٹ دیں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، کل ایک پروگرام میں میری فیملی کوزیر بحث لایاگیا،جس پر عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ خاموش رہیں اور نشست پر جاکر بیٹھیں، آپ کے وکیل یہاں موجود ہیں.ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ میں اس کیس میں بیان پیش کرنا چاہتا ہوں،اس پر عدالت نے کہاکہ قانون کی کون سی شق لاگو ہوتی ، ہماری معاونت کریں.جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کیا یہ سازش ہے، یہ تو ٹرائل کی سطح پر ثابت ہوگا، 14اس کیس کی کیا قانون حیثیت بنتی ہے ، اسکا دونوں سے پوچھیں گے،س بارے میں ملک ریاض کے وکیل سے پوچھا جائے گا، لوگ اور شاید دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ شاید غلط کام ہوا، ان میں سے2افرادحامد میر اور کامران خان یہاں آئے،ان لوگوں کو ملک ریاض نے کہاکہ ڈاکٹر ارسلان کو پیسے دیئے،ابھی تک معاملہ یہ ہے کہ کچھ لوگ بات کررہے ہیں، کیا یہ سازش ہے، یہ تو ٹرائل کی سطح پر ثابت ہوگا.ملک ریاض کے وکیل نے کہا کہ قانونی شق کے اطلاق کے سوال کا جواب، میرے بیان میں مل جائیگا، پاکستان پینل کوڈکی دفعہ 161کا اطلاق ہوتا ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ یہ قانونی شق تو سرکاری ملازم سے متعلق ہے، اس کا اطلاق تو نہیں ہوتا.جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ تیسری بارکہہ رہاہوں3افرادکے بیان پرٹرائل سپریم کورٹ نے نہیں کرنا.زاہد بخاری نے کہا کہ میموکمیشن کی طرح کمیشن بنادیاجائے یاکسی تفتیشی ایجنسی کویہ کام سپردکردیں۔دوران سماعت ملک ریاض کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل آج رات پاکستان پہنچ جائیں گے۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ان کے پہنچنے کی ضرورت نہیں تھی آپ صرف ابتدائی بیان جمع کروا دیتے جو کہ فون پر بھی پوچھا جا سکتا تھا۔عدالت صرف یہ جاننا چاہتی ہے کہ نجی ٹی وی کے 2 اینکرز حامد میر اور کامران خان سمیت شاہین صہبائی کے بیان جمع کرائے جا چکے ہیں ان میں کیا صداقت ہے۔زاہد بخاری نے کہا کہ ملک ریاض نے ان سے کہا کہ وہ تحریری بیان بھی جمع کرانا چاہتے ہیں تاہم ملک ریاض نے کہا کہ وہ خود عدالت میں پیش ہوں گے۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کے وکیل یہ بتائیں کہ اینکرز پرسن کے بیانات کو سچا یا جھوٹا جاننے کے لیے کس قانون کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جس پر ارسلان افتخار کے وکیل کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 420 کے تحت مقدمہ چلے گا۔عدالت عظمی تفتیش نہیں کر سکتی اس لیے کمیشن بنا دیا جائے عدالت نے یہ قرار دیا کہ یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ تفتیش نہیں کر سکتی تاہم ابتدائی طور پر کچھ چیزوں کو دیکھنا ہو گا۔ زاہد بخاری نے کہا کہ اخبار کی خبر پر پٹیشن داخل کرنے پر کمیشن بنا دیا گیا اب بھی معاملہ اس طرح کا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ملک ریاض عدالت میں ضرور پیش ہوں لیکن ان کو ہمارے حکم کی تعمیل تو کرنا چاہیے تھی۔انہوں نے عدالتی حکم عدولی کی ہے۔ اس موقع پر ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا سیکرٹری عدالت میں بیان دے کر گیا ہے کہ ان کے پاس مقدمے کے حوالے سے کوئی ریکارڈ مو جود نہیں۔سردار اسحاق نے کہا کہ انہوں نے ارسلان افتخار کی طرف سے آج ایک اور درخواست جمع کروائی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ سردار اسحاق ارسلان افتخار کی طرف سے جمع کرایا گیا بیان پڑھیں۔انہوں نے بیان پڑھا تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو اپنی ذمہ داری خود محسوس کرنی چاہیے اگر اس ادارے(عدلیہ)پر کوئی حرف آئے تو ضرور ایکشن لیں گے۔انفرادی طور پر اگر کسی پر تنقید کی جاتی ہے تو اس کو برداشت کیا جانا چاہیے۔ہم میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر کیس کی سماعت نہیں کریں گے۔اینکرز پرسنز نے ارسلان کے بارے میں عدالت میں جو کچھ کہا ہے اس کی اہمیت ہے اس موقع پر ارسلان کے وکیل نے کہا کہ اینکرز پرسنز کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بیان میں تضاد کا جائزہ ٹرائل میں لیا جاتا ہے کہ ابتدائی سماعت ہے۔اس نوعیت کے مقدمات میں ہم کسی کو چھوٹ نہیں دیں گے۔ ملک ریاض کی طرف سے ابتدائی بیان جمع نہ کرانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ جس کا جتنا ظرف ہوتا ہے اس کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی بستے ہیں جن کے دل بہت بڑے ہیں اور بہت سے لوگ چھوٹے ظرف والے بھی ہیں۔ہم نے اس عدالت کی عظمت کو ہر صورت برقرار رکھنا ہے۔ارسلان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میڈیا اور ملک ریاض کو روکا جائے کہ وہ کیس کی سماعت کے دوران ایسے بیانات سے گریز کریں اس موقع پر ملک ریاض کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض نے اپنے منہ سے کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے چیف جسٹس یا ان کے بیٹے کے خاندان کے خلاف کوئی بات کی ہے۔ارسلان افتخار کی طرف سے جمع کی گئی درخواست کو پڑھتے ہوئے ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کو دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے ان کو تحفظ دیا جائے جس پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ میرا یقین ہے کہ جس گولی پر میرا نام لکھا ہے وہ ضرور لگے گی اور میری حفاظت کرنے والا صرف اﷲ کی ذات ہے تاہم انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ سیکرٹری داخلہ سے بات کر کے ارسلان افتخار کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کریں۔ اس موقع پر ملک ریاض کے وکیل نے پھر کہا کہ ملک ریاض ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ارسلان یا ان کے خاندان کو کوئی بھی نقصان پہنچے۔اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے ملک ریاض کی انکم ٹیکس ریٹرنز کی کچھ تفصیلات عدالت میں جمع کروائی گئیں جن کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ 1986ء سے لے کر اب تک کئی سالوں کے ٹیکس ریٹرنز اس میں موجود نہیں ہیں لہذا عدالت میں موجود ایف بی آر کے لیگل آفیسر عاقل عثمان باقی تفصیلات آج عدالت میں پیش کریں عدالت نے قرار دیا کہ بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض دونوں کے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائے جائیں کیونکہ ملک ریاض 25 مئی2012 ء تک بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین تھے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ علی احمد ریاض ملک ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوں۔ان کو آج بھی پیش ہونا چاہیے تھا کیونکہ عدالت نے ان کو بطور چیف ایگزیکٹو بحریہ ٹاؤن طلب کیا تھا عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے شیرز کے مالک علی احمد ریاض اور وینا ریاض ملک ہیں۔سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کی جانب سے علی ظفر ایڈووکیٹ پیش ہوئے انہوں نے بھی بحریہ ٹاؤن کی طرف سے کوئی جواب داخل نہیں کروایا۔بعدازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ ڈاکٹر ارسلان نے ملک ریاض کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔ڈاکٹر ارسلان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے اور ملک ریاض کو ان کے خاندان کے خلاف پروپیگنڈے سے روکا جائے۔ملک ریاض کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست میں میڈیا میں عائد کئے گئے الزامات کوبنیاد بنایا گیا۔ارسلان افتخار نے درخواست میں کہا ہے کہ ان کے والد نے انہیں گھرسے نکال دیا لہذا انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ انہوں نے سیکریٹری بحریہ ٹاون سے تمام مواد طلب کرنے کی استدعا بھی کی۔ارسلان افتخار کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملک ریاض کے پاس ان کے اہل خانہ کی ویڈیوز ہیں۔ کیس زیر سماعت ہے اور اگر ملک ریاض کے پاس کوئی مواد ہے تواسے منظرعام پر لانے سے روکا جائے۔تصاویر اور ویڈیوز پر مشتمل مواد عدالت عظمی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ درخواست میں ملک ریاض کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کی استدعا بھی کی گئی۔

تبصرے