چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سزایافتہ ہیں انہیں اپیل کرنا چاہیے تھی۔وزیر اعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا پر سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شروع کی توتو وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ انتہائی اہم لہذا لارجر بنچ بنایا جائے


اسلام آباد (ثناء نیوز ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سزایافتہ ہیں انہیں اپیل کرنا چاہیے تھی۔وزیر اعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا پر سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شروع کی توتو وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ انتہائی اہم لہذا لارجر بنچ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سزا قبول کی ہے نااہلیت نہیں۔ ہر سزا کا مطلب رکن اسمبلی کی نااہلی نہیں ہوتا ۔ اس چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپیل کے دلائل اس کیس میں نہیں دے سکتے ۔بادی النظر میں آپ فیصلہ قبول کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کی سزا کا ناایلی سے براہ راست تعلق بنتا ہے.انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سزایافتہ ہیں انہیں اپیل کرنا چاہیے تھی. اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم نااہل نہیں ہوئے اس لیے اپیل نہیں کی گئی .اعتزاز احسن نے کہا کہ سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار حاصل ہے اس معاملہ میں سپیکر کا کردار صرف پوسٹ مین کا نہیں ہے۔ دوسری طرف اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کل میں نے کمرہ عدالت میں کوئی نازیبا اشارہ نہیں کیا لیکن اخبار میں اس غلط رپورٹ کیا گیا ہے۔وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے وزیرِ اعظم کی نا اہلی اور قومی اسمبلی کی سپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس میں لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست دائر کر دی ہے۔اعتراز احسن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اور اس کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کو توہینِ عدالت مقدمے میں جو سزا سنائی گئی ہے اس میں عدلیہ کی تضحیک کا کہیں ذکر نہیں ہے۔اعتراز احسن کا کہنا تھا کہ سپیکر کا کردار محض ڈاک خانے کا نہیں ہے اور اگر کسی بھی رکنِ اسمبلی کی اہلیت سے متعلق اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو سپیکر اپنا ذہن استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی رکنِ پارلیمان سزا کے بعد نا اہل نہیں ہو جاتا۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ توہین عدالت مقدمے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو دی گئی سزا میں ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے سے متعلق قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی رولنگ کے بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے اس موقع پر چیف جسٹس نے اعتراز احسن سے کہا کہ آپ کو یہ دلائل وزیرِ اعظم کو دی جانے والی سزا کے خلاف دائر اپیل میں دینے چاہیں تھے۔چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن سے استفسار کیاکہ انہوں نے توہین عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کیا۔واضح رہے کہ جمعرات کو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیت اور قومی اسمبلی کی سپیکر کی رولنگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس پر فوری کارروائی کی گئی تو پوری حکومت ہل کر رہ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ عدالت اس ضمن میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی شمولیت پر بھی اعتراض اٹھایا تھا جسے بینچ نے تسلیم نہیں کیا۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا اور اس واقعہ کے حوالہ سے غلط خبریں نشر اور شائع کی گئیں اسی پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کوئی نازیبا اشارہ نہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میں نے بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں دیکھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بڑے دل کے ساتھ عدالت میں بیٹھے ہیں ۔ اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے ۔ اس کی سماعت کے لئے لاجر بینچ بنایا جائے ان کا کہنا تھا کہ رکن پارلیمنٹ سزا سے نااہل نہیں ہوتا اور سپیکر قومی اسمبلی کا کام صرف پوسٹ آف کا کام نہیں ہے بلکہ وہ اپنی جو ذمہد اری آئین کے مطابق ہوتی وہ ادا کرنا ہوتی ہے ۔ اعتزاز حسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سپیکر نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سزا کے خلاف اپیل دائر کیوں نہ کی گئی ۔ عدالتی حکم سے ہی سزا ختم ہو سکتی تھی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو نکات اعتزاز احسن آج اٹھا رہے ہیں یہ اپیل میں اٹھائے جانے چاہئیں ۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انہیں اپیل دائر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے موکل سزا مکمل کر چکے تھے اور نااہلی نہیں بنتی تھی ۔ اس لئے اپیل دائر نہیں کی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تا کوئی بھی سزا اپیل دائر کئے بغیر ختم نہیں ہو تی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کیسے کہہ سکتا ہ ے کرپشن پر اڈیالہ جیل میں بیٹھا ہوا وزیر اعظم بھی رہے گا ۔ جیل کے سفید کپڑے پہن کر کوئی شخص کیسے حکومت کر سکتا ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا نااہلی ہے براہ راست تعلق بنتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ سات رکنی بنچ کا فیصلہ محترم ہے اسے غیر معروضہ نہیں کیا کہا جا سکتا ۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ججون کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی ۔ اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے مکالمہ کے دوران کہا کہ کبھی میری بات بھی مان لیا کریں اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ آپ کی بات مانی ہے اس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اب آپ نے میری بات ماننا چھوڑ دی ہے ۔ دوران سماعت سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپیکر کو بلانے کی ضرورت نہیں اگر آج چیف جسٹس سپیکر کو بلائیں گے اس پر چیف کا کہنا تھا کہ وہ چلے جائیں گے انہیں کوئی مسئلہ نہیں ۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ جو پڑھنا چاہئیں پڑھ لیں ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپیکر کیس میں فریق ہیں ان کی کیس میں نمائندگی ضروری ہے چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو سپیکر کے حق مین بات کرنے سے روک دیا ۔

تبصرے