سپریم کورٹ آف پاکستان سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزاکی جانب سے وزیر اعظم کے حق میں دی گئی رولنگ کے خلاف مقدمات کی سماعت آج تک ملتوی کردی ہے


اسلام آباد(ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزاکی جانب سے وزیر اعظم کے حق میں دی گئی رولنگ کے خلاف مقدمات کی سماعت آج تک ملتوی کردی ہے جبکہ جس کے دوران وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے دلائل مکمل کر تے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ معاملہ واپس اسپیکر کو یا الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے،کیونکہ عدالت کو کسی رکن کو نااہل قراردینے کا اختیار نہیں ہے۔معاملہ واپس بھیجنے کا وقت گزر چکا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کہتے ہیں 18 کروڑ عوام کا نمائندہ وزیراعظم سزا یافتہ ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی تین رکنی بنچ نے اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کی۔ اعتزا زاحسن نے کہاکہ درخواست گزاروں کو پہلے ہائی کورٹ جانا چاہیئے تھا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے خلاف کیسے ہائی کورٹ جایاجاسکتا ہے۔اٹارنی جنرل نے سماعت میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ 7 رکنی بینچ کا غیر آئینی حکم بھی 18 کروڑ عوام کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اگر جج پہلے سے ذہن بنا کر بیٹھے ہیں تو ان کے دلائل متاثر ہوں گے جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو کہا کہ وہ بیٹھ جائیں اور اپنی باری آنے پر بولیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم فرد واحد نہیں ۔18 کروڑ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کیاسزا یافتہ شخص عوام کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔اور ایک سزا یافتہ شخص 18 کروڑعوام کی نمائندگی کررہاہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروںکاکہناہے کہ سزا یافتہ شخص کا بینہ اجلاسوں کی صدارت کررہاہے جس پر اعتزاز احسن کاکہنا تھا کہ عدالت اگر حکومتی معاملات میںآئے گی تویہ عدلت کی جانب سے تجاوز ہو گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں کا کہناہے کہ وزیراعظم کی نااہلی سزا کا نتیجہ ہے اور عوام کی تقدیراس شخص کے ہاتھ میں ہے جسے عدالت نے سزا سنائی ۔چیف جسٹس نے اعتزاز سے کہا کہ وہ بار بار پرانی باتیں نہ دہرائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کسی پارٹی کا نہیں بلکہ عوام اور ملک کا نمائندہ ہوتا ہے اس موقع پر اٹارنی جنرل نے سپیکر کی جانب سے جواب عدالت میںجمع کرایا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ منتخب آدمی کی بات آئے گی تو عام آدمی کا حق دعویٰ بنتا ہے۔اعتراز احسن کاکہنا تھاکہ آئین سے تجاوز نہ وزیراعظم کر سکتاہے اور نہ ہی عدالت۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں نے انفرادی حیثیت میںدرخواستیں دائر کیں۔درخواست گزاروں کا اعتراض ہے کہ سزایافتہ شخص بجٹ دے رہاہے ۔ کیا یہ حقیقت نہیںکہ عوام کی قسمت کا فیصلہ سز ایافتہ شخص کررہا ہے اس موقع پر اعتزاز احسن نے مشرف کے وردی میں الیکشن لڑنے کے مقدمہ کا حوالہ دیا جس پر آپ متنازعہ مقدمات کے حوالے دے رہے ہیں۔ عدالتی ستم ظریفیوں کی بات کریں گے تو بات کہیں اور نکل جائے گی اس لیے آپ ہمیں پرانے راستے چھوڑنا پڑیںگے آپ کو متنازعہ مقدمات پر انحصار نہیں کرنا چاہیے ۔آپ وہ شخص ہیںجو آئین و قانون کے علمبردار ہیں اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ آپ نے خود اپیل کا حق استعمال نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی وکیل مشرف نصرت بھٹو ، ذوالفقار بھٹو اور دو سرے کیسوں کا حوالہ نہیں دیتا ۔ ہم نے آئین و قانون اور جمہوریت کو سامنے رکھنا ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جانتا ہوں سات رکنی بینچ کا فیصلہ حتمی ہو چکا اپیل اس لیے نہیں کی کہ بینچ نے وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں اس فیصلہ کا حوالہ دے رہے ہیں جو کئی فیصلوں سے زائل ہو چکا ہے ۔اس مقدمہ کی سماعت کے باعث بینچ کے روبرودیگر مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی گئی ۔ عدالت نے قرار دیا کہ بینچ نمبر ایک میں سماعت کے لیے رکھے گئے دیگر تمام مقدمات ملتوی کئے جاتے ہیں ۔عدالت نے کہا کہ پورا دن اسی کیس کو سنا جائے گا اور اصغر خان کیس کی سماعت بھی 22 جون تک ملتوی کی جاتی ہے۔دوران سماعت وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کے اختیار سماعت پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ کوئی صوبائی حکومت ، اس تنازع میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی کا بنیادی حق متاثر ہوا ہے ، اس لئے اس کیس کے موجودہ درخواست گزاروں کی درخواستیں قابل سماعت نہیں،۔اعتزاز احسن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک موقع پر جنرل پرویزمشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے والے کیس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہاکہ یہ محض اتفاق ہے کہ مجبوری کہ آپ اس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، آپ تو آئین و جمہوریت کے علمبردار ہیں، آپ کیوں اس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں جو کئی فیصلوں سے زائل ہوچکا ہے اور کوئی اس کی بات بھی نہیں کرنا چاہتا. اعتزازاحسن نے کہاکہ ستم ظریفی پر بحث کرنا شروع کریں تو بات کہیں اور چلی جائے گی. اعتزاز نے کہا وزیر اعظم کے بھی وہ حقوق ہیں جو عام آدمی کے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم فرد واحد ہیں نہ عام ایم این اے، وہ پورے ملک کے نمائندے ہیں۔ درخواست گزاروں کاموقف ہے وزیر اعظم کی نااہلی سزا کا نتیجہ ہے۔ عدالتی تاریخ میں کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جس کو مثال نہیں بنایا جا سکتا، جس میں بھٹو کیس شامل ہے۔ اب ہمیں ایسے فیصلے دینے ہیں جن سے عدالتی نظام درست ہو اور مستقبل میں ان فیصلوں کی مثالیں دی جا سکے.اعتزاز احسن نے کہا کہ حق دعوی کا دائرہ محدود ہے، اسے وسیع کیا تو مقدمات کا سیلاب آ جائے گا۔ معاملہ7 رکنی بینچ کے فیصلے کا نہیں اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسپیکر کا فیصلہ 7 رکنی بینچ کے حوالے سے ہے۔دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدالت کو کسی رکن کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے اس لیے معاملہ سپیکر یا الیکشن کمیشن کو بھجوا دے جس پر عدالت نے کہا کہ ایسا کرنے کا وقت گذر چکا ہے سپیکر کا دروازہ تیس روز میں کھل سکتا تھا جس کا وقت گذر گیا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اختیارات کے معاملہ میں انتہائی محتاط ہیں۔لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی۔اپیل کرنا ملزم کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔اس موقع پر اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم کے خلاف چارج شیٹ میں عدلیہ کی تضحیک کا ذکر نہیں ہے ۔اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ تضحیک اور حکم نہ ماننے میں کیا فرق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لفظ تضحیک کی قانون میں پہلے سے تشریح موجود ہے۔چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ جو نکات یہاں اٹھا رہے ہیں یہ اپیل میں اٹھائے جانے چاہیں تھے۔اگر عدالت کی جانب سے سزا درست نہیں تھی تو اپیل کرنی چاہیئے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کی عزت کرتے ہیں چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ کیا سپیکر کی رولنگ آئین کے مطابق تھی سپیکر نے آرٹیکل 63ایچ کو سامنے رکھ کر رولنگ دی۔اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم سعودی عرب میں ہیں وہ ان کے لیے اضافی دلائل دینا چاہتے ہیں عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کردی۔اعتزاز احسن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنر ل عرفان قادر نے اپنے دلائل میں موقف اختیا رکیا کہ عدالت میں جو مقدمات پہلے آئے ان کو پہلے سنا جائے ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے بد تمیزی کا مقدمہ بھی زیر التواء ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججوں کو فارغ کرنے والے جنرلوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔وزیر اعظم سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیئے ان کا کہنا قومی اسمبلی بھی سپیکر کی رولنگ کی توثیق کر چکی ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

تبصرے