سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے دی


اسلام آباد (ثناء نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے دی ہے جبکہ عدالت ننے صدر سے کہا ہے کہ وہ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے اقدامات کریں تاکہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے نا اہل ہوں گے اور ان کا عہدہ 26 اپریل سے خالی ہے عدالت عظمی نے چیئرمین الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وزیر اعظم کی اسمبلی رکنیت کی منسوخی کا فوری طور پر نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرنے والے سات رکنی بینچ نے 26 اپریل کو وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا تھا اس لیے وہ 26 اپریل سے وہ ممبر قومی اسمبلی بھی نہیں رہے ۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا منصب خالی ہو چکا ہے ان کو سزا آئین کے آرٹیکل 31-G کے تحت سنائی گئی تھی اور سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184-3 کے تحت سپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر کی گئی درخواستیں سننے کی مجاز ہے ۔یوسف رضا گیلانی 30 روز میں فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں اور صدر پاکستان جمہوریت کے تسلسل کے لیے اقدامات کریں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ ، جسٹس خلجی عارف حسین ، پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کو سپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سنایا ۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن اور اٹارنی جنرل عدالت میں موجود نہیں تھے ۔ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پڑھ کر سنایا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گیلانی کی جانب سے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی گئی اور سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت تھیں جو نمٹا دی گئی ہیں ۔ سپیکر کی رولنگ ایوان کی کارروائی کے زمرے میں نہیں آتی ۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مختصر فیصلے کی وجوہات بعد میں دی جائیں گی ۔ سپریم کورٹ میں سپیکر کی رولنگ کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اگر سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اسے کالعدم قرار دے دے گی ۔ سپیکر کی رولنگ کی قومی اسمبلی نے توثیق کی ہے ا س لیے رولنگ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔ وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔ان کو سنائی گئی سزا خلاف آئین اور قانون ہے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چودہری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں دی گئی رولنگ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے قومی اسمبلی کی طرف سے سپیکر کی رولنگ کے حق میں پاس کی گئی قرار داد پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار نہیں دے سکتی ا ور اداروں کے درمیان تصادم نہیں ہونا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمان کا احترام کرتے ہیں اور اداروں کے استحکام کے لیے یہاں بیٹھے ہیں ۔ اداروں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوگاکیونکہ پارلیمنٹ اپنا کام کررہی ہے اور ہم اپنا کام کررہے ہیں ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل ون کے تحت عوام کو عدالتی فیصلوں اور ججز پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا کام آئین و قانون کی تشریح ہے ۔ یہ کام ہم ہر صورت کریں گے۔ آپ اسے کوئی بھی نام دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون انگریزوں کا بنایا ہوا تھا۔ اور یہ قانون اس وقت بنایا گیا جب ہندوستان محکوم تھا۔ وزیراعظم کو نااہل قرار دینا صرف پارلیمنٹ کا کام ہے ۔ اور اگر کسی کا عمل عدالتی کام میں رکاوٹ نہیں ہے تو یہ توہین عدالت نہیں ہے ۔ ا نہوں نے کہا کہ سپیکر رولنگ اسمبلی کی کارروائی ہے ۔ اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ غیر ضروری باتیں نہ کریں صرف کیس سے متعلق دلائل دیں اور گیارہ بجے تک اپنے دلائل مکمل کرلیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد عدالت میں پیش کی جا چکی ہے اس لیے سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے کارروائی منظم کرنا ہے ۔ آپ اپنے دلائل جاری رکھیں جسٹس خلجی عارف نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ دلائل کی بجائے ججوں کے حوالے سے آرٹیکل پڑھ رہے ہیں ۔ عدالت کا کام آئین و قانون سے متصادم اقدامات کو روکنا ہے ۔ جس پر اٹارنی جنر ل نے کہا کہ عدالت کوئی حکم جاری بھی کردے گی تو پارلیمنٹ اسے کالعدم قرار دے دے گی ۔ اپ رائٹ جج شاید ہی توہین عدالت کا حق استعمال کرتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس نہیں ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی نے قرار داد کے ذریعے 24 مئی کو سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کی توثیق کی ہے ۔ عدلیہ کو توہین عدالت کا اختیار آرٹیکل 19-A سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ قومی اسمبلی کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ سپیکر پارلیمنٹ کے وقار اور تقدس کی نمائندگی کرتا ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سپیکر کی رولنگ اگر پارلیمنٹ کا قدام ہے تو قرار داد کی کیاضرورت تھی ۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ پھر کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کردے اس لیے قرار داد پاس کی گئی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کی سمری بہت سے افسران نے تیار کی ۔ سارا نزلہ وزیراعظم پر گرایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی جمہوری حکومتوں کو گرایا گیا ۔ ماضی میں آمروں کو عدلیہ نے تحفظ دیا ۔ وزیراعظم کسی فیصلے پر عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔ کیونکہ آئین کا آرٹیکل 248 وزیراعظم کو امور کی انجام دہی میں تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ غیر ملکی حکام کو صدر کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے خط لکھنے کی ہدایت کا اختیار نہیں رکھتی ۔ اور سات رکنی بینچ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 248 ون کی خلاف ورزی ہے ۔ عدالت سات رکنی بینچ کے فیصلے کو نظر انداز کرے کیونکہ وہ غیر آئینی تھا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت کے تین جج سات ججوں کے فیصلوں کو کالعدم کیسے قرار دے سکتے ہیں ۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو خط لکھنے کا حکم توہین عدالت کی کارروائی کے بعد دیا گیا ۔ اور سات رکنی بینچ نے چھ آپشن سے اپنا فیصلہ واضح کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کا کام سپریم کورٹ خود کر سکتی ہے ۔ وزیراعظم کو سزا بے بنیاد الزامات پر دی گئی ۔ وزیراعظم عدالت اور ججوں کا احترام کرتا ہے ۔ ا س لیے تین بار عدالت میںپیش ہوئے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا قانون موجود ہی نہیں تو عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے ۔ وزیراعظم کو سزا سنا کر یہ کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی تضحیک کی گئی ہے ۔ جس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ قانون موجود ہے ۔ اور اس حوالے سے عدالت فیصلہ بھی دے چکی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی حیثیت سے آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے ۔ کسی کو بچانا نہیں ہے ۔ آپ جو دلائل دے رہے ہیں ہم وہ نوٹ کررہے ہیں ۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت قانون کا غلط استعمال کرکے پی سی او ججز کو نکالا گیا ۔ توہین عدالت کا قانون موجود ہی نہیں تو اس پر عمارت کیسے کھڑی رہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں اگر قانون نہیں ہے تو کیا نظام ایسے ہی چل رہا ہے ۔ اٹارنی جنرل حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں کسی فریق کے مفاد کا تحفظ نہ کریں ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ ثابت کریں کہ توہین عدالت کا قانون موجود نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سے متعلق عدالت تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے اور توہین عدالت کی بنیاد سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان کا بیان ہے ۔ جن پر اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے 16 ججز نے 2008 ء میں توہین عدالت قانون کے تعین کا حکم دیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ این آر او کے کئی حصوں پرعملدرآمد نہیں ہو سکا اور نقابل عمل فیصلے پر عمل کے لیے ہدایات بھی ناقابل عمل ہیں ۔ سات رکنی بینچ کے فیصلے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے کب توہین عدالت کی ان کا کہنا تھا کہ 7 ججز نے مقدمہ میں شک کا فائدہ وزیراعظم کو نہیں دیا گیا اور وزیراعظم کی عدالت عظمیٰ کی طلبی غیر آئینی تھی ان کا کہنا تھا کہ ریاست سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو بری کرنا چاہتی ہے اور میں سات رکنی بینچ کے فیصلے میں ججز کی جانب سے شاعری پر کچھ نہیں کہیں گے جس پر جسٹس خلجی عارف ن ے کہا کہ شاعری تو آپ بھی کرتے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ ججز کے سوالات کے باعث اپنی گذارشات مکمل نہیں کر سکے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے تو سوال پوچھے ہی نہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اٹارنی جنرل یہ کہتے ہیں آج کیس کی سماعت مکمل کرنی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ(اٹارنی جنرل ) اپنے دلائل مکمل کرلیں آپ کے پاس مزید وقت ہے ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ توہین عدالت قانون کے حوالے سے قانون کے یقین تک اس کیس کی سماعت موخر کی جائے ۔ عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کردی ۔ عدالتی وقفہ سے قبل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے اور وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو غیر متعلقہ وکلاء کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور اٹارنی جنرل کے دلائل کے جواب میں دلائل شروع ہوئے۔دوران سماعت درخواست گزار اظہر صدیق کیجانب سے اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ اور عمران خان کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ نے جوابی دلائل دئیے ۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپیکر کا کردار ڈاکخانے کا نہیں ہے وہ کسی بھی معاملے میں اپنا مائنڈ اپلائی کر سکتی ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزیر ا عظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ نے آئینی و قانونی طریقہ کار کو سامنے رکھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ 63 ون جی کا اطلاق ہو چکا ہے صرف وزیر اعظم کی نا اہلی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا باقی ہے ۔ عدالت نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا معاملہ دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ کوئی آئین و قانون سے بالا تر نہیں ہے ۔ وزیر اعظم آج ہیںکل نہیں لیکن جمہوری نظام کو چلنا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی اور نہیں صرف آئین بالا دست ہے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ چونکہ وزیر اعظم کو سزا ہو چکی ہے اس لیے ان کی نا اہلی کا سوال پیدا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کو اس مقدمے کے فیصلے کا اختیار نہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپیکر نے خود کہا ہے کہ انہوں نے ریفرنس کا راستہ نہیں روکا سپیکر کے مطابق انہوں نے نا اہلی سے متعلق فیصلہ کیا چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپیکر عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ کے فیصلہ کی سکروٹنی کریں گی اور اگر اس بات کی اجازت دے گئی تو عدلیہ کی آزادی کیا ہوگی اور عدلیہ کہاں کھڑی ہو گی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپیلٹ کورٹ کے علاوہ کوئی عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتا ۔ان کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم کو سزا معطل ہوسکتی تھی مگر ان کی جانب سے اپیل نہیں کی گئی ۔ اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اختلافی نوٹ کے ساتھ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا سکتی تھیں جبکہ ایسا نہیں کیا گیا اور مدعا علیہان کی جانب سے این آر او اور توہین عدالت مقدمات کی سماعت کے دوران استثنیٰ سے متعلق بات نہیں کی گئی ۔ اس لیے کیس میں نئی باتیں شامل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گیلانی اپیل کرتے تو کچھ عرصہ کے لیے نا اہلی رک جاتی ہے ۔اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ عدالت وزیر اعظم کو خود بھی نا اہل قرار دے سکتی تھی ۔ الیکشن کمیشن نے تو صرف نوٹیفیکیشن جاری کرنا تھا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سات ججز نے طے کر دیا ہے کہ وزیر اعظم سزا یافتہ ہیں اور اٹھارویں ترمیم کے بعد ججوں کی تقرری کی صدر بھی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا ۔عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی گئی نا اہلی کے نوٹیفکیشن عدالت نے جاری نہیں کرنا تھا ۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ نا اہل شخص عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا ۔ حامد خان کے بعد سینیٹر ظفر علی شاہ نے دلائل دینا چاہے تو عدالت نے ان سے کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی اضافی دلائل ہیں تو دیں ۔جس پر انہوں نے مزید دلائل نہیں دئیے اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کچھ کہنا چاہا تو عدالت نے انہیں بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں اس لیے اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور جسٹس خلجی عارف حسین نے آئین میں مشاورت کی اور کہا کہ عدالت کچھ دیر بعد فیصلہ سنائے گی اور عدالت برخاست ہو گئی ۔جس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا۔واضح رہے کہ عدالت عظمی نے 26 اپریل 2012کو سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا سنائی تھی جس کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور 24مئی کوسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزیر اعظم کے حق میں رولنگ دیتے ہوئے کہا تھا وزیر اعظم نااہل نہیں ہوئے کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں انہیں نااہل قرار نہیں دیا ۔سپیکر کی اس رولنگ کے خلاف عدالت عظمی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان و دیگر کی جانب سے مقدمات دائر کیے گئے تھے۔

تبصرے