امریکی اور افغان فوجی اس پر غور کر رہے ہیں کہ پاکستانی قبائلی پٹی میں خفیہ کمانڈو آپریشن کا سلسلہ شروع کر کے ان انتہاپسندوں کے اڈوں کا قلع قمع کر دیا جائے


واشنگٹن(ثناء نیوز )امریکی اور افغان فوجی اس پر غور کر رہے ہیں کہ پاکستانی قبائلی پٹی میں خفیہ کمانڈو آپریشن کا سلسلہ شروع کر کے ان انتہاپسندوں کے اڈوں کا قلع قمع کر دیا جائے۔ مغربی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کے حکام قبائلی علاقوں میں سرگرم ان مقامی انتہاپسندوں کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں پر شاکی دکھائی دیتے ہیں جو افغان علاقوں میں بھی حملوں سے گریز نہیں کرتے۔افغانستان کی پاکستان سے ملحقہ سرحد پر واقع قبائلی پٹی میں سرگرم اور متحرک عسکریت پسندوں کو افغان علاقوں میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کارروائیوں سے روکنے میں پاکستان کی ناکامی پر امریکی فوجی اور خفیہ ادارے بیچینی کا شکار ہیں۔ امریکی اداروں کے مطابق پاکستان سے افغان علاقوں میں داخل ہونے والے انتہاپسند امریکی فوجیوں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کرتے اور ان سے ہونے والا جانی و مالی نقصان یقینی طور پر نیٹو اور امریکا کے لیے شدید پریشانی کا سبب ہے۔امریکی فوج کو پاکستانی قبائلی پٹی کے انتہاپسندوں کی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔اسی پریشانی کا احساس کرتے ہوئے امریکی اور افغان فوجی اس پر غور کر رہے ہیں کہ پاکستانی قبائلی پٹی میں خفیہ کمانڈو آپریشن کا سلسلہ شروع کر کے ان انتہاپسندوں کے اڈوں کا قلع قمع کر دیا جائے۔ پاکستان کے شمالی وزیرستان میں خطرناک حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کرنے پر پاکستان کو امریکی دبا کا سامنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ وائٹ ہاس بعض امریکی اہلکاروں کی ان تجاویز کو تواتر کے ساتھ مسترد کرتا آیا ہے کہ امریکی کمانڈوز از خود حقانی نیٹ ورک پر حملہ کریں۔ وائٹ ہاس کا خیال ہے کہ حقانی نیٹ روک کو کامیابی کے ساتھ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے امکانات اتنے نہیں ہیں کہ اس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دا پر لگایا جا سکے۔حقانی نیٹ ورک کے سرگرم کارکنوں کو بغیر پائلٹ کے امریکی ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اگر امریکی اور افغان کمانڈوز پاکستانی سر زمین پر بھیجے جاتے ہیں، تو اس سے پاکستان سیخ پا ہو سکتا ہے اور اس عمل کو اپنی سلامتی اور حاکمیت کے منافی قرار دے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں مقیم حقانی نیٹ ورک مافیا کے انداز میں اسمگلنگ کے علاوہ بعض اوقات دہشت گردانہ آپریشن کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے اور اس کا مقصد مشرقی افغانستان پر مسلسل اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا ہے۔خفیہ آپریشن کے حوالے سے حال ہی میں مذاکرات کا دور مکمل کیا گیا ہے۔ یہ مذاکراتی عمل پہلی جون کے اس کار بم حملے کے تناظر میں تھا، جس میں ایک سو کے قریب امریکی اور افغان فوجی زخمی ہوئے تھے۔ یہ حملہ سلیرنو علاقے کے ایک فوجی اڈے پر کیا گیا تھا۔ امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ خفیہ زمینی حملوں کے مذاکراتی عمل میں افغانستان میں اعلی امریکی فوجی کمانڈر جنرل جان ایلن کے علاوہ خصوصی فوجی آپریشنوں سے وابستہ سینئر اہلکار شریک تھے۔ جنرل ایلن کے ترجمان نیوی کمانڈر بروک ڈی والٹ کا کہنا ہے کہ جنرل ایلن سردست سرحد پار آپریشن کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔وائٹ ہاس اور امریکی انٹیلیجنس ادارے سی آئی اے نے ان رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جورج لِٹل کا کہنا ہے کہ امریکا بدستور پاکستان کے ساتھ تعاون پر فوکس کیے ہوئے ہے۔ جورج لٹل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا مل جل کر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کو مرتب کریں تاکہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو محفوظ بنایا جا سکے کیونکہ اسی سرحدی پٹی سے گزر کر انتہاپسند اتحادی فوج اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے ہیں۔

تبصرے