مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی اپیل پر پیر کے روز عام ہڑتال رہی ے جس کے سبب کشمیر کے بیشتر علاقوں میں تعلیمی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہی


سرینگر (ثناء نیوز ) مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی اپیل پر پیر کے روز عام ہڑتال رہی ے جس کے سبب کشمیر کے بیشتر علاقوں میں تعلیمی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔یہ ہڑتال دو سال قبل یہاں چلی احتجاجی تحریک کے دوران سرکاری کارروائیوں میں ایک سو بیس سے زائد نوجوانوں کی شہادت کے خلاف کی جارہی ہے۔ہڑتال کی کال حریت کانفرنس(گ)کے سربراہ سید علی گیلانی نے دی ہے جبکہ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے اس کال کی حمایت کی ہے۔ حریت کانفرنس (ع)کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے ہڑتال کی کال نہیں دی، لیکن انہوں نے ان ہلاکتوں کے بارے میں حکومت کی خاموشی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران ہلاکتوں، کرفیو، ہڑتال اور گرفتاریوں کی وجہ سے عام زندگی معطل ہوگئی تھی۔تاجر انجمنوں کا کہنا ہے کہ مسلسل کرفیو اور ہڑتالوں کی وجہ سے مقامی تجارت کو آٹھ ہزار کروڑ کا خسارہ اٹھانا پڑا۔طویل کشیدگی کے بعد حکومت ہند کے پارلیمانی وفد نے ستمبر دو ہزار دس میں کشمیر کا دورہ کیا اور تین مذاکرات کاروں کو تعینات کیا گیا۔”لوگ جمہوری اداروں سے انصاف مانگتے ہیں، لیکن انہیں ناامید کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے عوام کے لیے مسلح تشدد کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حیرت ہے ایک طرف حکومت ہند لوگوں سے قیام امن کی کوششوں میں تعاون طلب کرتی ہے، اور دوسری طرف امن کے راستے مسدود کیے جاتے ہیں۔”بعد ازاں حالات بظاہر مستحکم ہوگئے توگرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں کا کہنا ہے کہ ہزاروں نوجوانوں، جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے، کو گرفتار کرکے ان کے خلا ف مقدمے درج کئے گئے۔وزیراعلی عمرعبداللہ نے عام معافی کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا ہے۔اس دوران لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک نے ہلاکتوں میں ملوث پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ عدالت میں دائر ایک رِٹ درخواست کے ذریعہ کیا ہے۔ لیکن سماعت کے دوران حکومت نے جواب دیا کہ جو لوگ مارے گئے وہ ‘منشیات کے عادی، مجرم عناصر’ تھے۔اس پر مسٹر ملک کا کہنا تھا لوگ جمہوری اداروں سے انصاف مانگتے ہیں، لیکن انہیں ناامید کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے عوام کے لیے مسلح تشدد کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حیرت ہے ایک طرف حکومت ہند لوگوں سے قیام امن کی کوششوں میں تعاون طلب کرتی ہے، اور دوسری طرف امن کے راستے مسدود کیے جاتے ہیں۔

تبصرے