سبکدوش ہونے والے بھارتی فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ چین نے بھارت کو گھیرے میں لینے کی حکمت عملی کے تحت پاکستانی زیر انتظا م واخان پٹی سلسلے سے گذرتے ہوئے سڑک یا ٹنل کے ذریعے افغانستان کیساتھ اپنی چھوٹی سی سرحدکھولنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں


نئی دہلی (کے پی آئی )سبکدوش ہونے والے بھارتی فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ چین نے بھارت کو گھیرے میں لینے کی حکمت عملی کے تحت پاکستانی زیر انتظا م واخان پٹی سلسلے سے گذرتے ہوئے سڑک یا ٹنل کے ذریعے افغانستان کیساتھ اپنی چھوٹی سی سرحدکھولنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں جسکے جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے بھارت پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہونگے۔انہوں نے یہ بات دہرائی کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں چینی فوج کی موجودگی بھارت کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اورچین پاک اشتراک کے باعث افغانستان میں بھارت کا اثر ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ نئی دہلی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ چین افغانستان کے ساتھ اپنی ایک تنگ سرحد کھولنے جارہاہے جس کا راستہ ریاست جموں کشمیر کے نواحی علاقہ پامیر سے ہوکر گذرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دفاعی اعتبار سے اس پیش رفت کے بھارت پر گہرے اثرات مرتب ہونے والے ہیں کیونکہ بیجنگ کا یہ منصوبہدشمن کو گھیرے میں لینے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔اس ضمن میں انہوں نے سری لنکا اور مالدیپ کے علاوہ پاکستان اور میانمار کے ساحلی علاقوں میں چین کی سرگرمیوں کا بھی تذکرہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ چین کا افغانستان کے ساتھ واحد زمینی رابطہ ہے جو واخان پہاڑی سلسلے سے ہوکر افغان سرحد سے ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ جموں کشمیر کے شمالی علاقہ جات سے ہوکر گذرتا ہے جو اس وقت پاکستان کے قبضے میں ہے اور بھارت اس پر اپنا دعوی پیش کررہا ہے ، اگر یہ علاقہ پاکستان کی نگرانی میں نہیں ہوتا تو بھارت کا واخان سے افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطہ ہوتا۔سابق فوجی سربراہ کے مطابق چین نے افغانستان کے ساتھ زمینی رابطہ کی بحالی کے لئے سڑک یا غالباایک ٹنل کا استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان اور چین کے درمیان قریبی اشتراک جاری ہے۔جنرل (ر)وی کے سنگھ نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس صورتحال کی وجہ سے بھارت کا افغانستان میں اثرکم ہونے کا احتمال ہے۔ سابق فوجی سربراہ کا کہنا تھا یہ چین کا افغانستان کے ساتھ براہ راست اور زمینی رابطہ ہوگااور اس کیلئے واخان کو اس وجہ سے منتخب کیا گیا ہے کہ یہ ایک خاموش علاقہ ہے اور چین اس راستے کو افغانستان کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کیلئے استعمال میں لائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں جنرل(ر) وی کے سنگھ نے کہا کہ بھارت کو افغانستان پہنچنے کیلئے پاکستان سے عبور ومرور کا حق حاصل نہیں ہے جس کے باعث افغانستان کیلئے سمندری جہازوں کی آمدورفت ایران کی چھبہار بندرگاہ سے ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں چینی فوج یعنی پیپلز لبریشن آرمی کے اہلکاروں بالخصوص انجینئروں کی موجودگی پہلے ہی بھارت کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے جبکہ سیاچن گلیشیر کے متصل اکسائے چن کی وادی شزگام سے گذرنے والی شاہراہ قراقرم کی تعمیر بھی بھارتی فوج کیلئے پریشانی کا مسئلہ ہے۔بھارت کا کہنا ہے کہ اکسائی چن اس کا علاقہ ہے جبکہ چین اس کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جو اس کو پاکستان نے دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ واخان کا علاقہ افغانستان کی شمال مشرقی سرحد کے نزدیک ہے اور یہ ٹریک زیادہ سے زیادہ220کلو میٹر پر مشتمل ہے جو تاجکستان کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے الگ کرتا ہے اور انتہائی اونچے پہاڑی سلسلے سے ہوکر گذرتا ہے۔ قریبی پڑوسی ہونے کے باوجود چین کا افغانستان کیساتھ 1949سے کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے جب چین نے وخجیر درے کو بند کردیا تھا۔جنرل سنگھ نے کہا کہ ان کی تحقیق کے دوران انہیں چینی سرحد پر چینی فوجی اور انجینئرنگ سرگرمیوں کے کافی ثبوت و شواہد ملے ہیں اور وہ اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں جس کیلئے وہ ہر ممکن تعلیمی، تکنیکی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لائیں گے

تبصرے