قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے ایک ہفتہ میں وی آئی پی کی سیکورٹی پر دو ارب روپے سے زائد کے اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں


اسلام آباد(ثناء نیوز ) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے ایک ہفتہ میں وی آئی پی کی سیکورٹی پر دو ارب روپے سے زائد کے اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں ۔ کمیٹی نے غیر مجاز شخصیات ،وزیر اعظم ،وزراء اعلیٰ، ارکان پارلیمنٹ کے رشتہ داروں کو سیکورٹی کی گاڑیاں دینے اور ان کی حفاظت کے لیے سیکورٹی اہلکار تعینات کرنے کے بارے میں بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پی اے سی نے اخراجات کا حساب کتاب پیش نہکرنے پر رینجرز کے آڈٹ اعتراضات کو نمٹانے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ میں فرنیٹر کور ، فرنیٹر کانسٹیبلری ، دیگر سول آرمڑ فورسز کی کارکردگی پر بریفنگ دینے کی ہدایت کی ہے۔ پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ، سرکاری املاک کو نظر آتش کرنے ،توڑ پھوڑ اور ارکان اسمبلی کے گھروں پر حملوں کے حوالے سے صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو طلب کر لیا اس طرح خیبر پختونخوا میں بعض پولیس آفیسران کی ناقص کارکردگی ان آفیسران کو اہم ذمہ داریاں دینے پر وہاں کے آئی جی پولیس کو بھی طلب کر لیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر نے پی اے سی کو بتایا ہے کہ مشیر داخلہ نے سیکورٹی کے پیش نظر وزراء کالونی میں اپنی اقامت گاہ پر کیمپ آفس بنا لیا ہے۔ وزارت کے حکام بھی روزانہ وہیں موجود ہوتے ہیں۔ سرکاری آفیسران اور اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر افراد کو سر کاری پاسپورٹ جاری کرنے پر بھی رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ جمعہ کو پی اے سی کا اجلاس قائمقام چیئرپرسن یاسمین رحمن کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں کے حسابات کی جانچ پڑتال کی گئی پی اے سی نے آڈیٹر جنرل سے کہا ہے کہ غیر مجاز افراد کی جانب سے سرکاری سیکورٹی کی گاڑیوں کے استعمال اور ان کے لیے سیکورٹی اہلکار تعینات کرنے کے بارے میں آڈٹ پیرا ز بنائے جائیں۔ سرکاری خزانے کے نقصان کے حوالے سے ریکوری کی جائے گی۔ پی اے سی نے 2011 ء میں پانچ ہزار سے زائد پاسپورٹس کی چوری سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقات ، چوری میں ملوث سرکاری اہلکاروں اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے بارے میں تین دنوں میں رپورٹ مانگ لی ہے۔کمیٹی نے ایف سی کے لیے 2006-07ء میں پانچ کروڑ کی لاگت سے خریدے ہیلی کاپٹر کے استعمال کے بارے ایک ہفتہ میں رپورٹ مانگ لی ہے۔ کمیٹی کے رکن نور عالم نے کہا کہ چھوٹی ساخت کا یہ ہیلی کاپٹر آفیسران کے لیے خریدا گیا تھا۔ ایف سی کو اس کی اصل ڈیوٹیز سے ہٹا کر وی آئی پیز اور گوروں کی سیکورٹی پر لگا دیا گیا ہے۔پشاور میں ڈینکام نامی غیر ملکی سیکورٹی ایجنسی کی ڈیوٹی پر بھی ایف سی تعینات تھی۔ ارکان نے شکایات کی کہ وزارت داخلہ کے آفیسران اپنے دفتروں میں موجود نہیں ہوتے۔ سیکرٹری نے بتایا کہ مشیر داخلہ نے منسٹرز انکلیو میں اپنے گھر میں کیمپ آفس لگا لیا ہے۔آفیسران وہاں ہوتے ہیں سید ظفر نے کہا کہ اس کیمپ آفس کے بارے میں مشیر داخلہ کو نوٹی فکیشن بھی جاری کرنا چاہیے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہوں ریاض حسین پیرزادہ ،حامد یار ہراج ، نور عالم نے کہا کہ پولیس اپنے شہریوں سے بد سلوکی کرتی ہے۔ غیر ملکیوں کو عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ ایف سی کے ایک ایک آفیسر کی ڈیوٹی کے لیے ایف سی کے 20،20 جوان تعینات ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اہلکار نظر ہی نہیں آتے۔ نور عالم نے کہا کہ پشار میں بعض پولیس آفیسران دن میں بھی نشے میں دھت ہوتے ہیں جب پولیس آفیسران خود سمگلنگ میں ملوث ہونگے تو وہ امن وامان خاک برقرار رکھیں گے۔ پولیس کبھی غلط لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی شریف شہریوں کو ضرور تنگ کرتے ہیں۔ اعلیٰ شخصیات کے بھائیوں احباب ۔ رشتہ داروں نے سرکاری سیکورٹی لے رکھی ہے۔کمیٹی نے ایک ہفتہ میں بلیو بک کے برعکس مختلف شخصیات کو دی جانے والی سیکورٹی اور شخصیات کے نام مانگ لیے ہیں۔ پی اے سی ارکان اسمبلی ریاض فتیانہ، حامد یار ہراج ، زاہد اقبال کے گھروں پر مظاہروں کے دوران حملوں پر آئندہ اجلاس میں آئی جی پنجاب کو طلب کر لیا۔ ارکان نے کہا کہ سپانسرڈ مظاہرے تھے عوام کو بغاوت کا راستہ دکھایا گیا پولیس آفیسران ان میں ملوث ہیں۔وزارت داخلہ کو اس بارے میں انکوائری کمیٹی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی اے سی نے کہا کہ اگر پولیس آفیسران جلاؤ گھیراؤ توڑ پھوڑ کے واقعات کو نہیں روک سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر جائیں نور عالم نے کہا کہ ان واقعات کی براہ راست ذمہ داری آئی جی پر عائد ہوتی ہے۔ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ’’شریف گھروں‘‘ کے سامنے سیکورٹی کے حوالے سے کتے تعینات کر دیئے گئے انجن اور ڈگی کی چیکنگ کے بعد سیکورٹی کے مزیدانتظامات ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ حامد ریار ہراج نے غیر مجاز افراد کو سرکاری پاسپورٹ کے اجراء کا معاملہ اٹھایا ۔ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ مشیر داخلہ ہر فن مولا ہیں۔ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ وزیر اور سیکرٹری کو یہ پاسپورٹ جاری کر نے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے۔ وزارت داخلہ ،ایف سی رینجرز دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام حسابات کے حوالے سے پی اے سی 90 فیصد سوالات کے جوابات دینے میں نا کام رہے۔ پی اے سی نے وزارت داخلہ اور ماتحت سیکورٹی اداروں کے سپیشل پرفارمنس آڈٹ کا فیصلہ کیا۔

تبصرے