ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کتنا با اثر کیوں نہ ہو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے


اسلام آباد(ثناء نیوز )ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کتنا با اثر کیوں نہ ہو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے، اٹارنی جنرل قانون کو حرکت میں لائیں اور ملک ریاض، ارسلان افتخار اور سلمان علی کو سخت سے سخت کارروائی کریں۔ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمی میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ سماعت پر ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری اور اٹارنی جنرل نے مقدمہ کو نمٹانے کے لیے کمیشن بنانے سمیت دیگر تجاویز دی تھیں لیکن عدالت ان تجاویز کو درست نہیں سمجھتی اور اس کیس کی سماعت کو نمٹایا جا رہا ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالت کا 09صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اس لیے متعلقہ مجازعدالت ہی دھوکہ دہی، پیسے لوٹنے اور رشوت کے الزامات میں سزا سنا سکتی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ از خود نوٹس لینا ضروری تھا کیونکہ یہ عدالتی وقار کا معاملہ تھا اور یہ ضروری تھا کہ حقائق عوام کو بتائے جائیں۔اور کھلی عدالت میں مقدمہ کی سماعت سے ادارے کے بارے میں پائے جانے والے خدشات دور ہو گئے۔ فیصلے کے مطابق ارسلان افتخار نے پیسے لے کر مرضی کے فیصلوں کی یقین دہانی کرائی تو سزا ہونی چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سچ سامنے آنا چاہیئے جب تک کسی کو سزا نہ دی جائے وہ معصوم ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ملک ریاض، ارسلان افتخار اور سلمان علی کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیئے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ میڈیا پر ہونیوالی گفتگو میں سپریم کورٹ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ میڈیا ایسے لوگوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو جو آئین اور قانون کا احترام نہیں کرتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ کوئی خواہ کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو آئین اور قانون سے بڑھ کر نہیں۔ ہر ادارہ اپنے وقار اور عزت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آئین کے دفاع کا کام بغیر کسی خوف اور خطرے کے سر انجام دیتی رہے گی۔ اٹارنی جنرل قانون کو حرکت میں لائیں اور ملک ریاض، ارسلان افتخار اور سلمان علی تینوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ شاہین صہبائی نے تسلیم کیا کہ چیف جسٹس کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ان کے بیٹے کو استعمال کیا گیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ملک ریاض نے رشوت دے کر انصاف خریدنے کی کوشش، رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ اپنے فیصلے میں جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ملک ریاض نے صحافیوں کو ثبوت دکھائے ارسلان نے یقین دہانی کے بدلے رقم لی،ملک ریاض نے کہاازخودنوٹس کیسزمیں ریلیف نہیں ملاجس کاارسلان نے وعدہ کیا، ملک ریاض نے تصدیق کی کہ اس نے کئی صحافیوں سے رابطے کیے،ملک ریاض نے کہاکہ چیف جسٹس سمیت تمام ججزکااحترام کرتے ہیں،ایک شخص اپنے بیان میں تسلیم کرتا ہے کہ وہ ججزکا احترام کرتاہے، ۔ملک ریاض نے کہا کہ ارسلان نے ناصرف اسے دھوکا دیابلکہ بلیک میل کرکے پیسے لیے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قانون کے تحت یہ قابل سزاجرم ہے، رشوت لینے اوردینے والادونوں جہنمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض، سلمان اورارسلان کا شفاف ٹرائل بنیادی حق ہے، سچ سامنے آنا چاہیے، جب تک کسی کوسزانہ دی جائے وہ معصوم ہوتا ہے، جسٹس ایس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے کہا کہ 34کروڑخرچ کرنے کے باوجودکوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ،ملک ریاض کی طرف سے4.5ملین اخراجات کے حوالے دیے گئے،کہاگیا34کروڑخرچ کیے جس کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا،دستاویزات صرف غیرملکی دوروں کے اخراجات کے حوالے سے ہیں،رقم کی دیگرادائیگی پرکوئی بیان حلفی داخل نہیں کیاگیا،ہرادارہ اپنے وقاراورعزت کے تحفظ کاخودضامن ہوتاہے،فریقین کواوپن کورٹ میں مکمل موقع فراہم کیاگیا، عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ خواہ کوئی کتناہی بااثرکیوں نہ ہو،قانون سے بالاترنہیں۔عدالت آئین و قانون کی سربلندی کے لیے کا کرتی رہے گی۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں میڈیا کے بارے میں بھی ابزرویشن دی ہے کہ میڈیا نے ملک کے عوام کو یرغمال بنائے رکھا۔میڈیا نے جو دکھایا اور چلایا اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ملک ریاض نے براہ راست رقوم نہیں دیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا ہنا تھا کہ وہ پہلے دن سے کہ رہے ہیں اس کیس سے خیر برآمد ہوگی۔ جسٹس جواد نے زاہد بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کا اللہ مالک ہے اور انشااللہ ہم دیکھیں گے۔اس موقع پر زاہد بخاری نے عدالت کو انصاف پر مبنی فیصلہ سنانے پر شکریہ ادا کیا۔

تبصرے