سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کے سابق مالک ملک ریاض کو توہین عدالت کیس میں وکیل کر نے کے لیے ایک بار پھر سات روز کی مہلت دے دی ہے


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کے سابق مالک ملک ریاض کو توہین عدالت کیس میں وکیل کر نے کے لیے ایک بار پھر سات روز کی مہلت دے دی ہے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر آئندہ سماعت پر وکیل پیش نہ کیا گیا تو عدالت وکیل فراہم کرے گی جس پر ملک ریاض اعتراض نہیں کر سکیں گے ۔ جمعرات کوجسٹس میاں شاکر اللہ جان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع کی تو ملک ریاض کاکہنا تھاکہ انہیں ابھی تک وکیل نہیں ملا اس لیے عدالت انہیں مزید 10 دن کی مہلت دے ۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ جس بھی وکیل سے رابطہ کرتے ہیں وہ ان کی وکالت کرنے سے انکار کر دیتا ۔ ان کاکہنا تھا کہ کوئی وکیل ان کی وکالت کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جس پر جسٹس میاں شاکر اللہ جان نے کہا کہ وکیل کانہ ملنا عدالت کا مسئلہ نہیں عدالت کو تو اظہار وجوہ نوٹس کا جواب چاہیے تاہم عدالت انہیں کو سنے بغیر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی ۔ ملک ریاض نے اس موقع پرکہاکہ عدالت انہیں مزید وقت دے اور اپنا کیس میڈیامیں پیش کرنے کی اجازت دے ۔ ان کاکہنا تھا کہ بتاناچاہتا ہوں کہ یہاں تک پہنچنے کی نوبت کیسے آئی ۔ ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ان کے دل میں عدلیہ کا احترام ہے ۔ ان کاکہنا تھا کہ عدلیہ کو سلام کرتا ہوں میں نے اپنے کالموں میں بھی عدلیہ بحالی تحریک کی سپورٹ کی ہے ۔ جس پر جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھاکہ آپ نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو اس کو برے کام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ۔جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا احترام ہونا بھی چاہیے ۔ ان کاکہنا تھا کہ کہ عدالت نے آپ کو پہلے ہی سات دن دئیے ہیں ۔ ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ان کے پہلے وکلاء ان کاساتھ چھوڑ گئے ہیں وہ اس ضمن میں جھوٹ بول رہے ہیں نا ہی بہانے بازی کر رہے ہیں ملک ریاض کاکہنا تھاکہ اگر وہ قصور وار ثابت ہوئے تو سزا سنائی جائے جس کو وہ قبول کریں گے ۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھاکہ برے سے برے آدمی کو بھی وکیل مل جاتا ہے آپ کوکیوں نہیں ملتا اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد بارز نے وکلاء پر پابندی لگادی ہے کہ ملک ریاض کی وکالت کوئی وکیل نہیں کرے گا ۔ ملک ریاض کاکہنا تھا مناسب ہوتو عدالت انہیں دس دن کی مہلت دے جس پر جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ اگر انہیں پھر بھی وکیل نہ ملا تو کیا ہو گا ۔ ملک ریاض نے جواب دیا کہ انہوں نے جسٹس ( ر ) طارق محمود سمیت 4 وکلاء سے بات کی ہے لیکن انہوں نے سوچنے کے لیے مہلت مانگی ہے اور اگر پھر بھی کوئی وکیل نہ ملا تو اللہ میرا وکیل ہو گا اور عدالت جو سزا دے گی وہ اس کو قبول کریں گے ۔ اس موقع پر جسٹس میاں شاکر اللہ جان نے کہا کہ آپ کے الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں آئے تو کارروائی کی جائے گی ۔ اس موقع پر ملک ریاض نے کہاکہ انہوں نے اپنا اپریشن بھی اس مقدمہ کی وجہ سے موخر کر دیا ہے لیکن وہ حاجت کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میری طبعیت خراب ہے پھر بھی یہاں کھڑا ہوں ۔ اس موقع پر درخواست گزار اشرف گجر ایڈووکیٹ نے عدالت میں موقف اختیارکیا کہ ملک ریاض کی لیگل ٹیم موجود ہے اور یہ مزید وقت حاصل کرنے کے لیے عدالت کے ساتھ غلط بیانی کر رہے ہیں ۔ ملک ریاض نے جواباً کہا کہ دس دن میں ہر حال میں وکیل لائیں گے جبکہ اشرف گجر کا کہنا تھا کہ ملک ریاض عدالت میں غلط بیانی کر رہے ہیں اس لیے ان کو مہلت نہ دی جائے دوران سماعت عدالت میں موجود ایک وکیل نے کہاکہ عدالت ملک ریاض کو سرکاری خرچ پر وکیل کر کے دیا جائے ۔ عدالت نے فاضل وکیل سے کہاکہ اگر عدالت انہیں کہے کہ سرکاری خرچ سے ایک لاکھ روپے میں ملک ریاض کی وکالت کریں تو کیا وہ ملک ریاض کی وکالت کریں گے تو اس وکیل نے انکار کر دیا ۔ملک ریاض نے کہا کہ وہ بار کی جانب سے وکیل کو قبول نہیں کریں گے ۔ اس موقع پر جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ اگر عدالت نے وکیل دیا تو ملک ریاض اس پر اعتراض نہیں کر سکیں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار ملک ریاض کو مہلت دئیے جانے پر اعتراض کرسکتے ہیں ۔ عدالت نے بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں سے کہا کہ وہ ملک ریاض کو وکیل نہ ملنے پرزیادہ زور نہ دیں بھارت میں بھی اجمل قصاب کو وکیل نہ دینے کی قرار داد پاس کی گئی تھی لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے اجمل قصاب کو وکیل کی سہولت مہیا کی ۔ اس موقع پر ملک ریاض نے کہا کہ اس ملک میں ریمنڈ ڈیوس کو وکیل مل گیا لیکن انہیں وکیل نہیں مل رہا ۔ جسٹس میاں شاکر اللہ جان نے کہا کہ بارز اگر ملک ریاض کو وکیل نہ بننے کے حوالے سے قرار دادیں واپس لے لیں تو بارز کے وقار میں اضافہ ہو گا ۔جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھا کہ کسی کو حق سے محروم کر دینا خلاف انصاف ہے ۔ بار ایسوسی ایشنز کو کچھ ناگوار چیزیں بھی برداشت کرنی چاہئیں ۔ یہ بات وکلاء پر نہیں آنی چاہیے کہ آئین کے پاسدار انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔قرار دادیں قابل تعریف ہیں لیکن ملک ریاض کو اپنے دفاع کے لیے وکیل ملنا چاہیے اس موقع پر ایڈووکیٹ توصیف آصف نے کہا کہ ملک ریاض وقت حاصل کرنے کے لیے بہانے بنا رہے ہیں ۔اس موقع پر جسٹس طارق پرویز نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آئین انہیں حق دیتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے وکیل کریں ۔ ان کا کہنا تھا کہ بارز کی جانب سے دائر درخواستیں ملک ریاض کو سزا دلوانے کے لیے ہیں ۔ ملک ریاض نے کہا کہ وہ بیرون ملک نہیں جا رہے اور عدالتیں بھی یہیں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ سات دن کی مہلت دی جائے وہ اپنے دو وکلاء کیساتھ عدالت میں پیش ہوں گے اور اگر وکیل نہ ملا تو عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیں گے پھر عدالت جو چاہے سزا دے ۔ جس پر جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ آپ پہلے دس دن کی مہلت مانگ رہے تھے اب سات دن کی مہلت مانگ رہے ہیں ملک ریاض نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کا میڈیاٹرائل رکوایاجائے جبکہ میڈیا اور ارسلان افتخار کو اس کیس کا فیصلہ آنے تک بیانات سے روکا جائے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ عدالت نے آپ کو عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیانات سے روکا ہے ۔ بہتر ہے آپ میڈیا پر بات نہ کریں اس سے بات مزید بگڑے گی ۔ملک ریاض کا کہنا تھاکہ عدالت ان پر میڈیا میں جانے کی پابندی ختم کرے اس موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ بارکے سابق صدر اشرف گجر نے کہا کہ اس کیس میں ارسلان افتخار فریق نہیں ہیں یہ کیوں انکا نام لے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کو تین یا چار دن سے زیادہ مہلت نہ دی جائے ۔ اس موقع پر جسٹس شاکر اللہ جان نے کہاکہ بار ایسوسی ایشنز کسی وکیل پر ملک ریاض کا وکیل بننے پر پابندی نہ لگائیں جس پر ساجد الیاس ایڈووکیٹ نے کہا کہ پابندی تو صرف راولپنڈی اسلام آباد بارز نے لگائی ہے ۔ باقی پورا ملک تو موجود ہے ۔اس موقع پر جسٹس طارق پرویز کا کہنا تھاکہ بارز وکلاء کا حقہ پانی تو بند نہ کریں ۔عدالت نے ملک ریاض کو ہدایت کی کہ وہ تحریری طور پر عدالت میں لکھ کر دیں کہ آئندہ سماعت پر اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کریں گے جس پر انہوں نے عدالت کو تحریری بیان لکھ کر دیا کہ اگر آئندہ سماعت پر کوئی بھی وکیل نہ کریں تو عدالت انہیں جو چاہے سزا دے وہ قبول کریں گے بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت 28 جون تک ملتوی کر دی 

تبصرے