سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس میں عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی کوحکم دیا ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے تمام خفیہ ایجنسیوں کو بٹھا کر عدالتی حکم پر عملدرآمد کروائیں


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس میں عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی کوحکم دیا ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے تمام خفیہ ایجنسیوں کو بٹھا کر عدالتی حکم پر عملدرآمد کروائیں ۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور عدالت کے سامنے آیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں اور یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایف سی والے شہریوں کولا پتہ کرنے میں ملوث ہیں عدالت نے قرار دیا ہے کہ لا پتہ افراد کے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی توقعات کے برعکس ہے عدالت نے حکم دیا ہے کہ لاپتہ افراد ملک میں جہاں بھی ہیں ان کو ڈھونڈ کر لایا جائے اور سیکرٹری دفاع لوگوں کو لاپتہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کروائیں ۔ عدالت نے قرار دیا ہے خفیہ ایجنسیوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ لا پتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ یہ ثبوت بھی فراہم کئے جائیں کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں ۔ بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ ،لاپتہ افراد اور امن وامان کی مخدوش صورت حال کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر مقدمہ کی سماعت کی ۔ دوران سماعت بلوچستان حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی اعلی اختیاراتی کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پولیس بے بس ہے عدالتی احکامات کے بعد مزید 16 افراد کو قتل کردیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بلوچستان کا دورہ کرکے تو دیکھیں کیاحالات ہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن سے حکومت کی جانب سے تعاون نہیں کی جا رہا ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 8 ہزار افراد لاپتہ ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر گزرتے دن لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہم آئی جی بلوچستان کو بلوا کر حکم جاری کریںگے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ کینٹ ایریا میں داخلے کے لیے پولیس والوں کو اپنے کارڈز جمع کرانے پڑتے ہیں ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات پر بلوچستان کے حوالے سے ا علی اختیاراتی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں تمام حساس اداروں ، پولیس اور حکومتی نمائندگی ہے ۔ اٹارنی جنرل نے اعلی اختیاراتی کمیٹی کی لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس رپورٹ میں کوئی خفیہ معلومات نہیں تو پڑھ کر سنائی جائے اٹارنی جنرل نے رپورٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے کوئٹہ جا کر 8 جون سے 15 جون تک تحقیقات کیں انہوں نے رپورٹ کے مزید مندر جات پڑھے تو عدالت نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ مسترد کردی جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ایک ایڈیشنل آئی جی کمیٹی کا سربراہ ہے اس سے بلوچستان کے معاملہ میں حکومتی سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو بلوچستان کے مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے ۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی سے استفسار کیا کہ کمیٹی کے چیئرمین زاہد محمود اس سے قبل کتنا عرصہ بلوچستان میں تعینات رہے ہیں ۔ تو ان کا کہنا تھا کہ زاہد محمود کبھی بلوچستان میں تعینات نہیں رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی سربراہ زاہد محمود تو او ایس ڈی ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر زاہد محمود او ایس ڈی ہیں تو پھر یہ کمیٹی اعلی اختیارتی کمیٹی نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کو ہر صورت تلاش کیا جائے ۔ چاہے یہ کام آئی بی ، پولیس یا آئی ایس آئی کرے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے رپورٹ کا جائزہ لے کر کہا کہ یہ رپورٹ تو مفروضوں پر مشتمل ہے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ وہ لوگ محب وطن ہیں جن پر شورش کا الزام ہے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ آئی جی ایف سی بلوچستان سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو چلا رہے لیکن ملک کو اللہ چلا رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری فوج قبول کرتی ہے نہ ایف سی ۔ جسٹس جواد یس خواجہ کا کہنا تھا کہ وہ دن گئے جب کہا جاتا تھا کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے عدالت ہر صورت آئین و قانون کو مقدم رکھے گی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے بندے کو آئی جی بلوچستان لگا دیا گیا ہے جس کو بلوچستان کے بارے میںعلم ہی نہیں ہے ۔ اس موقع پر عدالت نے سیکرٹری دفاع اور نرگس سیٹھی کو ساڑھے گیارہ بجے پیش ہونے کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالت سیکرٹری دفاع کی موجودگی میں حکم لکھوائے گی ۔عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد بازیاب نہ کرانے پر آئی جی بلوچستان سے سرٹیفکیٹ طلب کیا جائے گا۔ سرٹیفکیٹ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے ۔ جسٹس جوا د ایس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ رپورٹس اور جذبات سے حل نہیں ہو گا اور بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا نہیں ہوگی اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیر شاہ سوری کے دور میں ہندوستان میں بہت امن تھا جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ شیر شاہ سوری کا دور حکومت تو دور کی بات 20 سال قبل بھی ایسے حالات نہیں تھے انہوں نے کہا کہ کسی کے پاکستانی ہونے پر شک نہیں تاہم حکومتی کوشش توقعات سے بہت کم ہیں ۔ عدالت نے آئی جی ایف سی کو حکم دیا کہ وہ ہر صورت لاپتہ افراد عدالت میںپیش کریں جبکہ عدالت نے سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر کو بھی طلب کیا ا س موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے مسلح افواج کے حلف نامہ کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو جائے سیاست میں حصہ نہیں لیں گے ان کا کہنا تھا کہ آئی جی ایف سی کو حلف نامہ کا متن بتایا جائے کیونکہ بعض اوقات حلف بھول جاتا ہے عدالت نے وقفہ سے قبل اٹارنی جنرل اور آئی جی ایف سی کو چیمبر میں مشاورت کی ہدایت کی ۔ مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کاکہنا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لیے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے نرگس سیٹھی سے کہا کہ ہم حکم جاری کررہے ہیں اس پر عملدرآمد کرایا جائے جس پر سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی نے کہا کہ انہوں نے 93 لاپتہ افراد کے بارے میں رپورٹ وزارت داخلہ کے پاس جمع کرا دی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ 93 افراد آئی ایس آئی یا اس کی ماتحت ایجنسی کی تحویل میں نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ ملک میں جہاں بھی ہیں ان کو ڈھونڈ کر لایا جائے کیونکہ حکومت کے پاس وسائل ہیں دوران سماعت حساس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے کہا کہ بلوچستان میں انتشار پایا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ محب وطن ہیں ۔ ۔ 

تبصرے