صدر مملکت آصف علی زر داری نے توہین عدالت ترمیمی بل 2012 پر دستخط کر دیئے


اسلام آباد (ثناء نیوز ) صدر مملکت آصف علی زر داری نے توہین عدالت ترمیمی بل 2012 پر دستخط کر دیئے ۔ وزیر اعظم ،وفاقی وزراء اور وزراء اعلیٰ کو توہین عدالت کے حوالے سے استثنیٰ حاصل ہو گیا۔ شائستہ زبان میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں عدالتی فیصلوں پر تنقید کے حوالے سے بھی ارکان کو طلب نہیں کیا جا سکے گا۔ صدر زر داری کی جانب سے دستخطوں کے بعد بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا ہے ۔ گزشتہ روز سینٹ نے بل کو منظور کیا تھا واضح رہے کہ قومی اسمبلی بل کی پہلے ہی منظوری دے چکی تھی جس کے بعد بل کو سینٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزشتہ روز بل صدر مملکت کو بھجوایا تھا جس کی باضابطہ توثیق کر دی گئی ہے پارلیمنٹ میں ن لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بل کی مخالفت کی تھی جبکہ اعتزاز احسن، مشاہد حسین سید، رضا ربانی نے بھی توہین عدالت بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ تاہم تینوں فاضل سینیٹرز نے رائے شماری کے موقع پر بل کے حق میں ووٹ دیئے تھے واضح رہے کہ یہ بل پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔مجوزہ بل کے تحت سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی مدت تیس روز سے بڑھا کر ساٹھ روز کی گئی ہے۔نئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے جوکہ ان کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہوگا۔ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہوگا جب تک اس کے خلاف اپیل اور نظر ثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا۔توہین عدالت کے مجوزہ قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف سکینڈلائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو وہ جج وہ مقدمہ نہیں سن سکتا اور چیف جسٹس بینچ بنائیں گے۔ کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کے خلاف اگر کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کو سکینڈلائیز کرنا تصور نہیں ہوگا۔اگر چیف جسٹس کو سکینڈ لائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو چیف جسٹس کے فرائض دو سب سے سینیئر دستیاب جج نمٹائیں گے۔انٹرا کورٹ آرڈر یا عبوری حکم کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بینچ سنے گا۔ اگر کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کے خلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست فل کورٹ کرے گا۔ قانون کا اطلاق ہو گیا ہے۔

تبصرے