سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نئے قانونکے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 204میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔توہین عدالت کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے۔


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نئے قانونکے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 204میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔توہین عدالت کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے۔عدالت نے مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے توہین عدالت کے نئے قانون پر پارلیمنٹ میں کی گئی بحث کا ریکارڈ طلب کر لیاہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ کوشش کی جائے گی کہ مقدمہ میں آج( جمعرات کو) دلائل مکمل کر لیے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاستدانوں کی بصیرت سے اس قانون کو اٹھارہویں ترمیم میں نہیں چھیڑا اگر وزیر اعظم کو استثنیٰ نہیں دیا تو صدر کو بھی نہیں دیں گے کیا امریکہ میں صدر رچرڈ نکسن کو استثنیٰ دیا گیا توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی عدلیہ کی تضحیک کا اختیار حاصل نہیں کر سکتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ غریب کے لیے قانون اور اشرافیہ کے لیے چھوٹ تباہ کن ہو گی۔ درخواست گزار خالد فاروق کے وکیل عبدالرحمن صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ توہین عدالت ایکٹ میں انتظامیہ کو عدلیہ پر بالا دستی دی گئی ہے جو اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ حکومت عدلیہ کا اختیار بڑھا تو سکتی ہے مگر کم نہیں کر سکتی۔ توہین عدالت کا نیا قانون مجموعی طور پر توہین آمیز ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی عدلیہ کی تضحیک کا اختیار حاصل نہیں کر سکتا۔ جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ غریب کے لیے قانون اور اشرافیہ کے لیے چھوٹ معاشرہ کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالتیں آزاد ہیں تو ملک کو کوئی نہیں ہرا سکتا البتہ عدلیہ کو کرپٹ بنانا تباہ کن ثابت ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے اسلامی قانون واضح ہیں ۔جمعۃ الوداع کے خطبہ میں تمام تفریق ختم کر دی گئی ۔ جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ فریقین کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کا اپنا اختیار سلب ہو رہا ہے اور وہ اپنے ہی فیصلوں پر عملدر آمد نہیں کروا سکے گی۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ پبلک آفس ہولڈرز کو استثنیٰ صرف نیک نیتی کی بنا پر حاصل ہے امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہو تو یہ چیز تباہی کی طرف لے کر جائے گی یہ قانون عام شہریوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل میں کہا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے لیکن یہ اختیار لامحدود نہی یہ قانون سازی متعین حدود کے اندر ہی رہ کر کی جا سکتی ہے نئے توہین عدالت قانون میں اسلامی دفعات کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا ان کا کہنا تھا کہ نئے قانون کے تحت جس شخص کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ دیکھے گا کہ یہ فیصلہ قانونی ہے یا غیر قانونی پھر اس پر عمل کا فیصلہ کرے گا اس پر جسٹس تصد ق جیلانی نے کہا کہ کیا کوئی شخص عدالت کے فیصلہ کا جائزہ لے گا کہ آیا یہ قانونی ہے یا غیر قانونی اس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ پھر تو ایک پٹواری بھی عدالت کے فیصلے پر کہے گا کہ یہ غیر قانونی فیصلہ ہے اس پر عملدر آمد نہیں کیا جائے گا اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر یہ مردہ قانون ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کے قانون 2003 کو 18 ویں ترمیم میں تحفظ دیا گیا ہے وفاق کے وکیل عبدالشکور پر اچہ نے عدالت سے کہا کہ وہ قانون کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کے لیے آئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے شکور پراچہ کو ہدایت کی کہ پارلیمنٹ میں توہین عدالت قانون پر کی جانے والی بحث کا ریکارڈ فراہم کیا جائے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت مجبور ہو گی کہ وہ آفس ہولڈرز کے بارے میں بھی دیکھے شاید قانون سازوں نے بھی یہ شق اس لیے ڈالی کہ صدر کی طرح وزیر اعظم اور دیگر کو استثنیٰ دیا جائے فیصلہ دینا ہو گا کہ کیا عوامی عہدے والے ا س میں آتے ہیں یہ خطرناک ایریا ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین میں ہر چیز کا حل موجود ہے کوئی عدالت کو بدنام کرے اور پھر کہے کہ مجھے تو استثنیٰ ہے اگر ہم نے وزیر اعظم کو استثنیٰ نہیں دیا تو صدر کو بھی نہیں دیں گے۔ عدالت نے اس نکتے کی وضاحت کے لیے اٹارنی جنرل اور وفاق کے وکیل سے رائے طلب کر لی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر، وزیر اعظم، گورنر کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ حکم کی خلاف ورزی کرے حکم کی خلاف ورزی توہین عدالت ہے چاہے وہ مجسٹریٹ کی عدالت ہی کیوں نہ ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ کو دیکھیں تو وہاں واٹرگیٹ اور پھر صدر کلنٹن کی مثالیں ہیں کیا امریکی صدر رچرڈ نکسن کو استثنیٰ ملا تھا؟، عبد الرحمان صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ میں بابر اعوان ، شرجیل میمن ، ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات زیر سماعت ہیں ، نیا قانون ان افراد کو بچانے کے لئے لایا گیا ہے ،، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ، پبلک آفس ہولڈرز کو استثنیٰ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر حاصل ہے، یہ قانون عام شہریوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جسٹس تصدق جیلانی نے کہاکہ ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، ہمارے سامنے تو صرف یہ قانون زیر سماعت ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ عدالتیں تو آئین و قانون کے مطابق فیصلے دیں گی کسی کو پسند آئیں یا نا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ استثنیٰ کی بنیاد پر کوئی عدالت کو گالی دے اے کے ڈوگر نے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ میں بل پر بحث نہیں ہونے دی گئی اس وجہ سے اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا۔ ججز کے ہاتھ میں تلوار نہ ہو تو وہ کاغذی شیر ہوں گے اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا واک آؤٹ کیا حل؟ ان کو تو مزاحمت کرنا چاہیے تھی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندوں کو ووٹر کے حق کا تحفظ کرنا ہے یہ ووٹر کے حق سے ناانصافی ہے کہ باہر جا کر کافی پینا شروع کر دیں ووٹر نے نمائندوں کو بھیجا کے ان کے حقوق کی حفاظت کریں جسٹس تصدق جیلانی کا کہنا تھا کہ ایسا رویہ مینڈیٹ سے دھوکہ دہی ہے کیا کبھی سنا کے برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ جب اس قانون پر بحث کا ریکارڈ منگوایا ہے ہمیں آئین اور اپنے ضمیر کے مطابق چلنا ہے ایسی بات نہ کریں ایک نا اہلی کا فیصلہ دیا فوری نوٹی فیکیشن ہوا کہ نہیں۔ جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا جرم منفرد نوعیت کا ہوتا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 204 میں کسی کو استثنیٰ کا ذکر نہیں توہین عدالت کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے بظاہر آرٹیکل 248 اور 204 متصادم نہیں جسے تضاد نظر آتا ہے اس کی نظر کمزور ہے جبکہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے توہین عدالت بل کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بحث کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا۔ عدالت نے توہین عدالت کے خلاف دائر درخواستوں کی مزید سماعت آج(جمعرات) تک کے لیے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے کہ آج( جمعرات) کو تمام درخواست گزاروں کے دلائل مکمل کر لیں۔

تبصرے