)سپریم کورٹ آف پاکستان نے مہران گیٹ سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ تمام ریاستی امور صرف آئین کے تحت ہی چل سکتے ہیں اور 31 جولائی کو سابق صدر پرویز مشرف کے اقدامات کو کالعدم قرار دئیے جانے کے عدالتی فیصلہ کے بعد ملک میں آئی ایس آئی کا کوئی سیاسی سیل کام نہیں کر سکتا


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے مہران گیٹ سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ تمام ریاستی امور صرف آئین کے تحت ہی چل سکتے ہیں اور 31 جولائی کو سابق صدر پرویز مشرف کے اقدامات کو کالعدم قرار دئیے جانے کے عدالتی فیصلہ کے بعد ملک میں آئی ایس آئی کا کوئی سیاسی سیل کام نہیں کر سکتا اگر کوئی سیل کام کررہا ہے تو اسے فوری طور پر بندکیا جائے عدالت کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ماضی میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں رقوم کی تقسیم میں جو بھی ملوث پایا گیا اسے سزا ضرور ملے گی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدالت میں مقدمہ آیا ہے اس کا فیصلہ ضرور سنایا جائے گا ۔ ملک میں بنگلہ دیش طرز کا سسٹم نہیں آ سکتاآئین کے تحت جمہوری عمل بغیر کسی ماورائے آئین مداخلت کے جاری رہے گا۔ پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان کی جانب سے دائر مقدمہ کی سماعت کی ۔۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر ، سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی ، وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز اور فریقین کے وکلاء بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ سماعت کے دوران عدالت میں آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے قیام کا نوٹیفیکیشن ایک بار پھر پیش نہیں کیا گیا ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن 39 سال پرانا ہے اس لیے مل نہیں رہا تاہم انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ نوٹیفیکیشن تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے بیان حلفی کے مطابق انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاست دانوں یں رقوم تقسیم کی گئیں اس موقع پر وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع کے پاس آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے قیام کوکوئی نوٹیفیکیشن موجود نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفیکیشن کے بغیر مقدمہ کو آگے بڑھانا مشکل ہو گا 31 جولائی کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا اب ملک میں کوئی غیر آئینی اقدام ہو گا نہ اس کی توثیق ہو گی اب سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اب عدلیہ کو کمزور کرنے کی باتوں سے کام نہیں چلے گا ۔ اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں لیکن یہاں ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس نے دنیا کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو سمجھتے تھے کہ ان کا وجود ناگزیر ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ڈرامہ ہے جہاں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ اس موقع پر سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع کے علاوہ کابینہ ڈویژن میں بھی آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے قیام کا نوٹیفیکیشن تلاش کرایا گیا ہے لیکن نہیں مل سکا۔اس موقع پر عدالت نے سیکرٹری دفاع سے استفسار کیا کہ کیا آئی ایس آئی اور ایم آئی کی نمائندگی بھی وزارت دفاع کریگی تو نرگس سیٹھی نے موقف اختیار کیا کہ وہ اس بارے میں حکومت سے پوچھ کر عدالت کو بتائیں گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر لیگل کے مطابق دونوں ادارے اپنی نمائندگی خود کریں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی یہ کہے کہ اسے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا سیاسی سیل کے قیام کا نوٹیفیکیشن گزٹ آف پاکستان میں ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا ملک کے بہت سے دشمن ہیں لیکن اگر ہمارے اندر کمزوری نہ ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کسی اور کونہیں خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئی ایس آئی بھی وزیر اعظم کو جواب دہ ہے ۔ عدالت نے اپنے حکم میں اٹارنی جنرل کو کہا کہ سیاسی سیل کے بارے میں اسد درانی کی جانب سے ملنے والی دستاویزات کا جائزہ لیں اور ہدایات لے کر عدالت کو بتائیں کہ کوئی سیاسی سیل کام کر رہا ہے یا نہیں ۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو مزید کہاکہ وہ اسد درانی کی دستاویزات کا جائزہ لیں کہ سیاسی جماعتوں میں رقوم کی تقسیم سے قومی مفاد متاثر ہوتا ہے یا نہیں اگر قومی مفاد متاثر ہوتا ہے سمری عدالت کے ریکارڈ پر لائی جائے ورنہ اس سمری کو سربمہر کر کے عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ تمام چیزیں شفاف ہوکر آئیں اب ریاست کے تمام امور آئین کے مطابق ہی چل سکتے ہیں کوئی بنگلہ دیشی ماڈل نہیں آئے گا ۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ سیاسی سیل پر اسد درانی سے ملنے والی سمری کا جائزہ لیا جائے، دوسری صورت میں اس سمری کو سربمہر کرکے عدالت میں پیش کیا جائے.عدالتی آرڈر میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے تحت جمہوری عمل بغیر کسی ماورائے آئین مداخلت کے جاری رہے گا.وزیراعظم سمیت سب کے نوٹس میں لائیں کہ سیاسی سیل تھا تو بھی کام نہیں کرسکتا، سیاسی سیل سے متعلق عدالت 31 جولائی کے فیصلے میں لکھ چکی ہے. اٹارنی جنرل کے استفسار پرجسٹس خلجی عارف نے کہاکہ سیاسی سیل کام نہیں کرے گا ، 31جولائی کے فیصلے میں لکھا ہے ، پڑھ لیں ، عدالت نے قرار دیا کہ ریاستی امور صرف آئین کے تحت ہی چل سکتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالتی حکم سے وزیر اعظم وزارت دفاع اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو عدالتی حکم سے آگاہ کریں مقدمہ کی مزید سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی گئی 

تبصرے