چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں امن و امان سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس صوبے میں امن وامان قائم کرنے میں مکمل ناکام کوچکی ہے


کوئٹہ (ثناء نیوز )چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں امن و امان سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس صوبے میں امن وامان قائم کرنے میں مکمل ناکام کوچکی ہے، وہ جو کام کرنا چاہیں وہ کرلیتے ہیں،چیف جسٹس نے آئی جی پولیس کو دالبندین سے ایک مغوی کی بازیابی کے لئے آج(جمعہ) تک کا وقت دے دیا۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران دالبندین سے اغوا کئے گئے محمودالحسن نامی شخص کی اہلیہ کے بیان کے بعد دئیے، جس کا کہنا تھا کہ دالبندین میں جن لوگوں نے میرے شوہر کو اغوا کیا وہ آزاد گھوم رہے ہیں اور پولیس سمیت کسی کو دالبندین کے فیصل ٹاون کے علاقے میں جانے کی ہمت نہیں ہے، پولیس والوں کو خود اپنے بچوں کی جانوں کا خطرہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے آئی جی پولیس کو حکم دیا کہ وہ خود جائیں اور اسے بازیاب کرائیں اور وہ تین لائن لکھ کر دیں کہ وہ جمعہ کو مغوی کو لارہے ہیں۔جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے آئی جی پولیس بلوچستان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس صرف پانچ فیصد علاقہ ہے پھر بھی وہ امن قائم کرنے میں ناکام ہے لیویز کے پاس 95 فیصد علاقہ ہے اور وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جتنے بھی لوگ اغواء ہوتے ہیں ان کے لواحقین تاوان دے کر انہیں بازیاب کرواتے ہیں جو پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے چیف جسٹس نے آئی جی پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب آپ کو تو کچھ معلومات ہی نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کے واقعات ہو رہے ہیں لوگ خود اپنے پیاروں کو بازیاب کروا رہے ہیں ۔پولیس مکمل طور پر ان معاملات میں ناکام ہو چکی ہے اور آپ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈی ایس پی صاحبان کو کیوں ڈی پی او تعینات کیا جاتا ہے عدالت نے دالبدین سے لا پتہ ہونے والے شخص محمود الحسن کے کیس پر آئی جی سے استفسار کیا جس پر آئی جی عدالت کو مطمئن نہ کر سکے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محمود الحسن کے کیس میں آئی جی خود دالبدین جائیں اور اگر انہیں کمشنر کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے بھی ساتھ لے جائیں اور محمود الحسن کو آج ( جمعہ ) کو عدالت میں پیش کریں ایس پی انوسٹی گیشن لسبیلہ نے رمضان مینگل کیس سے متعلق عدالت کو بتایا رمضان مینگل کو حساس ادارے اٹھا کر لے گئے ہیں اس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ان کے پاس اس کے کیاشواہد ہیں کہ رمضان مینگل جو کہ لسبیلہ کا رہائشی ہے کو حساس ادارے اٹھا کر لے گئے چیف جسٹس نے دوران سماعت ایف سی کمانڈنٹ سے کہا کہ آپ کو فرنٹ پر کردار ادا کرنا ہو گا پولیس کی طرف سے مکمل ناکامی ہے چیف نے آئی جی پولیس سے کہا کہ آپ کے پاس انوسٹی گیشن میں ایس پی ہیں انہیں ڈی پی او لگائیں چیف جسٹس نے ریمارکس دےئے کہ یہ سب کے لیے چیلنج ہے کہ مغوی رقم دے کر آتے ہیں ہر کیس میں کامیابی ہونی چاہیے یہ نہیں کہ اللہ میاں خود بھیج دیں گے چیف جسٹس نے عدالت میں موجود ایف سی کمانڈنٹ سے کہاکہ آپ کمانڈنٹ ہیں آپ کو فرنٹ پر کردار ادا کرنا ہو گا کمشنر سمیت جس کی ضرورت ہو لے جائیں دوران سماعت صوبائی وزیر داخلہ میر ظفر اللہ زہری کے خلاف درج اغواء کے مقدمہ میں انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے مدعی کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شواہد ملے ہیں کہ جسے اغوا ظاہر کیا جا رہا ہے وہ شخص 2005 میں اپنے والد کیساتھ کراچی گیا اس پر عدالت نے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن حامد شکیل سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کیس کریں ان کا کہنا تھا کہ کیس کا مطلب وزیر داخلہ کی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے بٹورے جائیں عدالت میں موجود محمد حسین کے والد اور والدہ نے ڈی آئی جی کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی جعل سازی ہے اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اس کیس کو دوبارہ دیکھا جائے اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو ایف آئی آر کینسل کر دی جائے چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ظفر زہری ملوث نہیں تھے تو چالان کیوں کیا گیا اس پر حامد شکیل کاکہنا تھا کہ یہ کرائم برانچ نے کیا تھا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا قانون سب کے لیے برابر ہے ظفر زہری کے وکیل نے کہا کہ مغوی محمد حسین دو تین کیسوں میں اشتہاری ہے جسٹس جواد خواجہ نے پولیس حکام سے استفسار کیاکہ کیا ظفر زہری بھی اس سے قبل اشتہاری رہ چکے ہیں ۔سپریم کورٹ نے لا پتہ افراد محمود الحسن اور عطاء الرحمان کی بازیابی کے لیے دو ہفتے کا وقت دے دیا جبکہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن نے بتایا کہ لا پتہ ظفر اللہ کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہے ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ کسی نے اٹھایا ہوا ہے چیف جسٹس نے سیشن جج کی انکوائری رپورٹ پڑھ کر سنائی اور ایف سی کے وکیل راجا ارشاد سے کہاکہ اس کے علاوہ کیا تحقیقات آپ کو چاہئیں لوگ غائب ہیں گاڑی بھی ایف سی کی نکلی آپ بندے بھی لے آئیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے سارے افسر گرفتار ہوں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوں چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی آتاہے نہ اس کا ڈی آئی جی آتا ہے وہ کورٹ کو اہمیت نہیں دیتے 

تبصرے