سپریم کورٹ نے این آر او کے فیصلے پرعملدرآمد کے مقدمے میں وزیراعظم پاکستان کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے آٹھ اگست کی حتمی مہلت دے دی ہے


اسلام آباد (ثناء نیوز )سپریم کورٹ نے این آر او کے فیصلے پرعملدرآمد کے مقدمے میں وزیراعظم پاکستان کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے آٹھ اگست کی حتمی مہلت دے دی ہے ۔سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت 8اگست تک ملتوی کرتے ہوئے وزیراعظم کو عدالتی احکامات پر عمل کرنے اور عدالتی حکم پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کیلئے مزید دو ہفتوں کی مہلت دے دی ہے جبکہ عدالت نے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بینچ سے علیحدگی کے حکومتی اعتراض کو بھی مسترد کر دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔بدھ کو این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل عدالت عظمی کے 5رکنی بینچ نے کی ۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ امید ہے دو اداروں کے درمیان دوری ختم کرنا نا ممکن نہیں، اٹارنی جنرل نے معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، ملک کے اہم اداروں میں نام نہاد تناو ہے، عدالت توقع کر تی ہے کہ آئندہ تاریخ تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا، پہلے ایک وزیراعظم کو غیر آئینی طور پر گھر بھیج دیا گیا۔ عدالت کے روبرو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا 12 جولائی کا حکم پہلے والے حکم سے مطابق نہیں رکھتا، سپریم کورٹ کسی نیب افسرکو ہدایات نہیں دے سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس آصف کھوسہ خود کو بنچ سے الگ کریں۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ نیب عدالت کو جوابدہ بھی نہیں ہے، این آر او کیس کے عدالتی فیصلے میں بڑی خامیاں ہیںاس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں، آپ سوچیں راستے نکل سکتے ہیں، ہم پہلے پاکستانی ہیں، عدالت ایک قانونی پوزیشن لے چکی ہے، ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں، ایڈجسٹمنٹ سیاست میں کی جاتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ آپ نے جو خط لکھا تھا وہ موجود ہے اس کو سامنے لائے تو آپ کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ آپ اس کیس میں نیب کے پراسکیوٹر جنرل تھے، آپ خودنے بتایا کہ آصف زرداری کو جنیوا میں منی لانڈرنگ پر سزا ہوگئی۔سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ پر اعتراض کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹس کھوسہ پر تعصب کا الزام ہے اس لیے بینچ سے علیحدہ ہو جائیں جس کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس طرح کا تاثر دیا جا رہا ہے جس سے قوم خوفزدہ ہے جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ان پر ایسا کوئی الزام نہیں ہے جیسے ہی کوئی الزام ہو گا میں خود ہی مقدمہ سے الگ ہو جاوں گا ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے بارہ جولائی کو جو حکم نامہ دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم سوئس حکومت کو خط لکھیں یہ حکم نامہ نا قابل عمل ہے ۔ اس پر عمل نہیں ہو سکتا ان کا کہنا تھا کہ بہت سے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ جج کچھ ایسے احکامات دے دیتے ہیں جن پر عمل نہیں کیا جا سکتا ۔ ان پر نظرثانی بھی کرنا ہوتی ہے اور ان کو واپس بھی لینا ہوتا ہے اس لیے ہم نے گزشتہ روز ایک درخواست دی تھی لہذا ہمیں مزید مہلت دی جائے تاکہ ہم نظرثانی کی درخواست دائر کرسکیں ۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر آپ نظر ثانی کی درخواست دائر کرناچاہتے ہیں تو ہمیں پہلے بتا دیتے تاکہ ہم یہ معاملہ موخر کر دیتے ۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ انہیں عدالت وقت دے گی ۔ اس پر جج مسکرا دئیے اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وہ جب ٹی وی آن کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم خوفزدہ ہے خدا کے واسطے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کسی نظام کو پٹری سے نہیں اتارنا ہم نے کسی عہدیدار کو نہیں ہٹانا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملات کو سلجھانا ہے جو خط لکھنا ہے لکھیں اور جو نظرثانی کی درخواست دائر کرنا ہے کر دیں ۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس آصف کھوسہ سے کہا کہ آپ اپنے فیصلوں میں خلیل جبران کی مثالیں دیتے ہیںجس پرجسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ آئندہ خلیل جبران کی مثال نہیں دیں گے بلکہ شکسپیر یا کسی اور جس کی آپ کہیں مثال دے دیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ عدالتیں وقت نہیں دیں گی نظر ثانی کے لیے وقت مانگا گیا ہے آپ کو دو ہفتوںکا وقت دیا جاتا ہے ۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زر داری ہمارے بھی صدر ہیں ہماری نظر میں بھی ان کی عزت ہے ۔ یہ ہمارا ملک ہے اسے آگے لے کر چلنا ہے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ این آر او فیصلے میں کچھ نقائص ہیں ۔ عدالت نے قرار دیا کہ زبانی طور پر تو صدر کو حاصل آئینی استثنیٰ پر بات کی جاتی ہے لیکن تحریری طور پر بات نہیں کی گئی اور حکومت کی جانب سے تحریری طور پر یہ کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو حاصل استثنیٰ پر بات نہیں کی جائے گی ۔عدالت کا کہنا تھاکہ اگرحکومت اس معاملہ پر بات کرنا چاہتی ہے تو ہم اب بھی اس معاملہ کو سننے کے لیے تیار ہیں عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے جو حکم دے رکھا ہے وہ یہ ہے کہ سوئس عدالتوں کو ملک قیوم کی جانب سے لکھا گیا خط واپس لینے کے لیے خط لکھاجائے ۔ اس معاملے میں اگر حکومت غور کرے تو اس معاملہ کے اندر کے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملہ پر کافی غور کر چکے ہیں لیکن بظاہر یہ فیصلہ نا قابل عمل ہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں عدالتوں کو حساس نہیں ہونا چاہیے بہت سے ایسے معاملات سامنے آ جاتے ہیں جو قابل عمل نہیں ہوتے اور ان کی نشاندہی کی جاتی ہے اس لیے ججوں کو ایسے معاملات کو ذاتی معاملات نہیں سمجھنا چاہیے جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ ہم سب کا ملک ہے کسی کا ذاتی معاملہ نہیں ہے ہم بھی اس ملک میں جمہوریت کا استحکام دیکھنا چاہتے ہیں اورنہیں چاہتے کہ اس ملک کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچے نہ توہم اس نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی عہدیدار یا ادارے کے خلاف کوئی کارروائی چاہتے ہیں ۔ عدالت چاہتی ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے تاہم اٹارنی جنرل کا بار بار یہ کہنا تھا کہ وہ نظر ثانی کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں تا کہ بارہ جولائی کا وہ حکم واپس لیا جائے جس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات سدھاریں تا کہ قیاس آرائیاں ختم ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ معاملہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ بعد ازاں عدالت نے تحریری حکم لکھواتے ہوئے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے معاملہ کو حل کرنے کی یقین دہانی کرانی ہے۔ ملک کے اداروں میں نام نہاد تناؤ ہے امید ہے کہ ملک کے دو اہم اداروں کے درمیان دوری ختم کر نا نا ممکن نہیں ہے ۔ توقع ہے کہ آئندہ سماعت تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔مقدمہ کی سماعت کی ابتداء میں نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے این آر او عملدر آمد کیس کی رپورٹ پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے وکیل چھٹی پر ہیں اور عملدر آمد کے حوالے سے رپورٹس پیش کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ احمد ریاض شیخ اورعرفان خواجہ کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدنان خواجہ کے خلاف تفتیش مکمل کر لی گئی ہے دو تین ہفتوں میں معاملہ ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے رکھا جائے گا اور متعلقہ حکام کو کارروائی کے لیے یہ رپورٹ بھجوا دی گئی ہے اور مزید دو تین ہفتوں میں ان کے خلاف ریفرنس بھجوانے یا نہ بھجوانے کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔ پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ ملک قیوم اور ان کے بیٹے تحقیقات میں نیب سے تعاون کر رہے ہیں جبکہ احمد ریاض شیخ کا معاملہ پراسیکیوشن ڈویژن کو بھجوا یا گیا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا معاملہ اتنا ہی گھمبیر ہے کہ دو سال میں بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ چار ہفتوں میں ملک قیوم کے خلاف انکوائری متعلقہ حکام کو پہنچا دی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ نیب احمد ریاض شیخ ، عدنان خواجہ اور ملک قیوم کے خلاف تحقیقات کی مکمل رپورٹ عدالت میں پیش کرے جس پر نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عدالت چار ہفتوں کی مہلت دے مکمل عمل در آمد رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ اس موقع پر احمد ریاض شیخ اور عدنان خواجہ کے وکیل ڈاکٹر باسط روسٹم پر آئے اور کہا کہ احمد ریاض شیخ اور عدنان خواجہ اپنی سزا مکمل کر چکے ہیں لٰہذا ان کا نام مقدمہ سے خارج کیا جائے۔ اس موقع پر جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ملک قیوم سے متعلق سپریم کورٹ نے نظر ثانی میں کچھ نرمی کی ہے فیصلہ ذہن میں رکھیں عمل نہ کر نے سے نیب کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ نیب نے عدالت کو بتادیا ہے کہ احمد ریاض شیخ اور عدنان خواجہ سے متعلق تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اس لیے ہمارا کیس الگ کر دیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن یہ کیس لگتا ہے وہ دن میرے لیے سوہان روح ہوتا ہے۔ ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاتھی اور ہم چوہے ہیں۔ جس پر جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ آپ کی روح کی تسکین ہو جائے ۔ نیب نے مقدمہ پر دو سال لگائے ہیں جو کرنا ہے نیب نے ہی کرنا ہے ۔ جسٹس کھوسہ کا بھی ایک متفرق درخواست آئی ہے جس کے مطابق ان کے خلاف ریفرنس دائر ہو گیا ہے۔ بعد ازاں مزید سماعت 8 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔ahs-wh-ai-ah 

تبصرے