وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں دو دو پلاٹس لینے کے لیے تمام نامور بیورو کریٹس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے


اسلام آباد(ثناء نیوز)وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں دو دو پلاٹس لینے کے لیے تمام نامور بیورو کریٹس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، سیکرٹری جنرل ایوان صدر، سلمان فاروقی، سید کمال شاہ، اسماعیل قریشی، محمد عبداللہ یوسف، شکیل درانی، جی ایم سکندر، شعیب سڈل، رفعت پاشا، عبدالرؤف چوہدری سمیت 56 اعلیٰ بیوروکریٹس نے وفاقی دار الحکومت میں دو دو پلاٹس لیے۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے 22 گریڈ کے افسران کے لیے مراعاتی پیکج کا اعلان کیا تھا ان کی منظوری پر ان بیورو کریٹس کو دو دو پلاٹس کا استحقاق حاصل ہو گیا تھا۔ مجموعی طور پر اسلام آباد میں 214 بیورو کریٹس کو پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں۔ 158 بیورو کریٹس کی ملکیت ایک ایک پلاٹ ہے منگل کو فہرست پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کر دی گئی ہے۔ فہرست کے مطابق دو دو پلاٹس حاصل کر نے والوں میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید، سابق سیکرٹری ثقافت جلیل عباس ،وزارت خزانہ کے نوید احسن، محمد اسماعیل قریشی، عبدالرؤف چوہدری، اعجاز رحیم سابق سیکرٹری کابینہ، میجر (ر) سید کمال شاہ سابق سیکرٹری داخلہ ، محمد جمیل، اسماعیل حسن نیازی، وکیل احمد خان سابق سیکرٹری مذہبی امور، سابق چیئر مین ایف بی آر محمد عبداللہ یوسف، ساجد حسین چٹھہ، ساجد حسین، محسن حفیظ سابق سیکرٹری ایوان صدر، سید محسن اسد سابق سیکرٹری فیڈرل ٹیکس،محمد ہمایوں فرشوری سابق سیکرٹری بلدیات، جہانگیر بشیر، جسٹس(ر) منصور احمد سابق سیکرٹری قانون، محمد شکیل درانی سابق چیئر مین ریلویز، ڈاکٹر شیخ علیم احمد، سہیل منصور، کامران رسول سابق سیکرٹری دفاع، ڈاکٹر پرویز طاہر، افتخار احمد خان سابق کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس، حسن سفیر سابق سفیر،محمد یٰسین طاہر، غیاث الدین احمد ملک، عارف منصور(مرحوم)، سید منصور جاوید، رخسانہ جبار میمن (آڈٹ)، جی ایم سکندر، سابق پرنسپل چیف منسٹر پنجاب، احمد جواد، غیاث الدین، سابق سیکرٹری ریلوے ،محمد شریف خان، بدر الاسلام، انور حیدر، شعیب سڈل سابق ڈی جی آئی بی، راجہ رضا ارشد، سمیع الحق خلجی سابق سیکرٹری ہاؤسنگ، ایس ایم جنید، سلمان فاروقی سیکرٹری جنرل ایوان صدر، محمد رفعت پاشا سابق سیکرٹری سیفران، سبطین فضل حلیم، عبدالمعیض بخاری، اشفاق احمد گوندل سابق سیکرٹری اطلاعات، محمد احمد میاں، عبدالودود خان، عمر خان علیزئی (سابق سفیر)، شہباز سابق سفیر، محمد علی آفریدی، سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، خالد ادریس، جنید اقبال چوہدری سابق سیکرٹری وفاقی محتسب، سیدشبیر احمد سابق کمانڈنٹ نیشنل پولیس اکیڈمی، جی اے صابری شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حسابات جانچ پڑتال کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کرنے سے معذرت کر لی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے تحت ججز کا کنڈکٹ ، مجلس شوری میں زیر بحث نہیں آسکتا، عدالت کے مشاورتی دائرہ کار پر صدر مملکت ہی فیصلہ کرسکتے ہیں چودھری نثارعلی کے بطور چیئرمین پی اے سی کے دور میں کمیٹی نے عدالت کے آڈٹ سے متعلق سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا، موجودہ چیئرمین ندیم افضل کی ہدایت پراب یہ جواب جاری کردیا گیا ہے،اس کے مطابق سپریم کورٹ کی فل کورٹ کا جواب، رجسٹرار آفس کے ذریعے پی اے سی کو ملا ، اس میں کہا گیا ہے کہ متعدد آئینی شقوں کے مطابق کمیٹی کو اعلی عدلیہ کا کوئی اہلکار طلب کرنے کا اختیار نہیں ہے، رجسٹرار سمیت کوئی اہلکار ، کمیٹی میں پیش نہیں ہوسکتا،کمیٹی کو باقاعدہ عدالتی حکم چاہیئے تو صدر مملکت سے رابطہ کرے کیونکہ سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ کار پر صدر مملکت ہی فیصلہ کرسکتے ہیں،جواب میں کہاگیاہے کہ آرٹیکل 68 کے تحت ججز کا کنڈکٹ ، مجلس شوری میں زیر بحث نہیں آسکتا، ججز کے کنڈکٹ میں عدلیہ کے انتظامی و مالی امور آتے ہیں اور آرٹیکل68 کے تحت ججز کا کنڈکٹ ، مجلس شوری میں زیر بحث نہیں آسکتا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے 21 ججز کو پلاٹس دیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کسی قسم کا کوئی بھی پلاٹ نہیں لیا14 ججز کو دو دو پلاٹس ملے۔ منگل کو تفصیلات قومی اسمبلی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کی گئیں ہیں۔ پی اے سی میں پیش فہرست کے مطابق دو دو پلاٹس لینے والوں میں سابق سیکرٹری قانون و انصاف جسٹس (ر) منصور احمد، جسٹس محمد نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر ،جسٹس محمد جاوید بٹر، جسٹس سید سعید ۔۔۔۔، جسٹس عبد الحمید ڈوگر، جسٹس سردار محمد رضا خان ، جسٹس میاں شاکر اﷲ جان،جسٹس تصدیق حسین جیلانی ،جسٹس جاوید اقبال، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس ناصر الملک، جسٹس سید جمشید علی، جسٹس سید زاہد حسین شامل ہیں۔ 6 ججز جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس غلام ربانی، جسٹس چوہدری اعجاز احمد، جسٹس محمد سامر علی ، جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس عارف حسین خلجی کو ایک ایک پلاٹ الاٹ ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کوئی پلاٹ نہیں لیا۔

تبصرے