حکومت نے پیر کو قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط کو معطل کرتے ہوئے توہین عدالت کے نئے قرضوں کے بارے میں بل کو کثریت رائے کی بنیاد پر منظور کر ا لیا ہے


اسلام آباد (ثناء نیوز )حکومت نے پیر کو قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط کو معطل کرتے ہوئے توہین عدالت کے نئے قرضوں کے بارے میں بل کو کثریت رائے کی بنیاد پر منظور کر ا لیا ہے ۔اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شدید ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے شیم شیم کے نعرے لگائے ۔ایوان میں وزیر قانون و انصاف سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ایوان میں معمول کی کارروائی کی معطلی کے بعد توہین عدالت سے متعلق قانون وضع کرنے کا بل 2012ء پیش کیا ۔بل کے تحت صدر کے ساتھ وزیر اعظم، وفاقی وزراء اعلیٰ توہین عدالت کے حوالے سے مستثنیٰ قرار پائیں گے۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے ۔ سردار مہتاب احمد نے کہا کہ حکومت ایوان میں بل کو بلڈوز کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین ہے۔ وزیر قانون و انصاف سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے جنرل(ر) پرویز مشرف نے 2003ء اور 2004ء میں جو قانون دیا تھا اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ چاہتے ہیں وہ قانون برقرار رہے۔وزیر قانون نے کہا کہ بل ابھی متعارف کرایا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت نے پرویز مشرف کی ساری پالیسیوں کی دو قدم آگے بڑھ کر تقلید کی۔ شرم آنی چاہیے ملک کو پرویز مشرف سے زیادہ ان حکمرانوں نے دگنا بیچا ہے۔ وزیر قانون و انصاف نے کہا کہ میاں نواز شریف کے دور میں بھی توہین عدالت کے قانون میں ترامیم آئی تھیں۔ شو کاز نوٹس یا عدالتی حکم کے حوالے سے اپیل کا حق دیا گیا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایک سانس میں وزیر قانون نے بل متعارف کر ایا اور منظوری کے لیے پیش کر دیا۔ چند منٹ قبل بل کا مسودہ ملا ہے۔ اتنی جلدی کیسے ترامیم لا سکتے ہیں۔ حکومت 1976ء کا ایکٹ بھی ختم کر رہی ہے اگر 1998ء میں کسی غلطی کی کوشش کی گئی تھی تو کیا 2012ء میں اس کودہرانا چاہتے ہیں۔قانون کا واحد مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ باندھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ بل کے تحت کوئی بھی عوامی عہدیدار عدلیہ کو نشانہ بنا سکے گا۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو مقدس گائے قرار دیا جا رہا ہے۔ قانون کا وقت بھی غلط ہے۔ انتہائی بد ترین قانون ہے۔ قانون بنے گا عدلیہ میں پٹیشن دائر ہو جائے گی۔حکومت پوری پارلیمنٹ کی بے عزتی کر انا چاہتی ہے۔ آصف علی زرداری اپنی لڑائی کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں،یہ بچنے کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ خود غیر جمہوری قوتوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ قانون میں تحریر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان توہین عدالت کا نوٹس لیں گے تو خود سماعت نہیں کرسکیں گے۔ سیکشن آفیسر کو اچھی نیت کے خوشنما الفاظ کے ذریعے عدلیہ پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت دی جا ری ہے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ اﷲ کے بعد عوامی عدالت سب سے بڑی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے یہی گزارش ہے کہ ہمیں اپنا کام کرنے دے۔ ایک دوسرے کوبرداشت کیا جائے اسی پارلیمنٹ نے عدلیہ کو آزاد کیا۔ اکثریت کو تسلیم کیا جائے ووٹ کی طاقت پر قانون سازی کا حق حاصل ہے اور انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ حکومتی معاملات کو عدالتی جانچ پڑتال سے بچایا جا رہا ہے ان کے کاموں پر توہین عدالت کا اطلاق نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم پر خط لکھنے کی جو تلوار لٹک رہی ہے اسے ہٹانا چاہتے ہیں۔قانون کی عملداری کو پیچھے لے کر جا رہے ہیں۔حکومتی بد نیتی واضح ہے کہ اسے مسترد کیا جائے ورنہ اختیارات کے نا جائز استعمال کا لائسنس مل جائے گا جو اس ایوان کی تاریخ میں لکھا جائے گا۔تصادم عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان نہیں بلکہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ہے دوسرے کے گناہ ہمارے دامن کو صاف نہیں کر سکتے۔ کشمالہ طارق ، کیپٹن محمد صفدر نے بھی بل کی مخالفت کی۔بل کے مطابق آئین کی شق دو سو اڑتالیس کی ذیلی شق ایک کے تحت جن عوامی عہدے رکھنے والے اشخاص کو استثنی حاصل ہے، ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکے گی۔مجوزہ بل کے تحت سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی مدت تیس روز سے بڑھا کر ساٹھ روز کی گئی ہے۔نئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے جوکہ ان کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہوگا۔ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہوگا جب تک اس کے خلاف اپیل اور نظر ثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا۔توہین عدالت کے مجوزہ قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف سکینڈلائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو وہ جج وہ مقدمہ نہیں سن سکتا اور چیف جسٹس بینچ بنائیں گے۔ کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کے خلاف اگر کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کو سکینڈلائیز کرنا تصور نہیں ہوگا۔اگر چیف جسٹس کو سکینڈ لائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو چیف جسٹس کے فرائض دو سب سے سینیئر دستیاب جج نمٹائیں گے۔انٹرا کورٹ آرڈر یا عبوری حکم کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بینچ سنے گا۔ اگر کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کے خلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست فل کورٹ کرے گا۔

تبصرے