سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتہ افراد کے معاملہ پر آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اﷲ خان خٹک کو آج(بدھ) کو طلب کر لیا جبکہ عدالت نے ایف سی کے وکیل کو حکم دیا ہے کہ صوبہ کے تمام لاپتہ افراد کو ایک ہفتہ کے اندر بازیاب کرایا جائے


کوئٹہ(ثناء نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاپتہ افراد کے معاملہ پر آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اﷲ خان خٹک کو آج(بدھ) کو طلب کر لیا جبکہ عدالت نے ایف سی کے وکیل کو حکم دیا ہے کہ صوبہ کے تمام لاپتہ افراد کو ایک ہفتہ کے اندر بازیاب کرایا جائے جبکہ عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز کو حکم دیا ہے کہ وہ فراری کیمپوں میں موجود چھ افراد کو آج (بدھ) کو عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ صوبہ کے عوام کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے چیف سیکرٹری بلوچستان عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں جبکہ دوران سماعت بختیار ڈومکی اہل خانہ قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں چیف جسٹس ا فتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کی ایف سی نے بلوچستان سے بندے اٹھائے ہیں، صرف بندا چاہیئے اس سے کم کچھ نہیں، بلوچستان کی ترقی کے ساتھ ساتھ صوبے کے عوام کے حقوق اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے ، قانون نافذکرنے والے ادارے چند تخریب کاروں کے ہاتھوں کیوں بے بس ہیںچیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دئے،بلوچستان میں امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت بدھ کو پھر ہوگی۔ منگل کو مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس ا فتخار محمد چودھری نے صوبائی سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ ماہ جون اور جولائی میں کتنے لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے جس پر عدالت عظمی کو بتایا گیا کہ ماہ جون میں کل ایک سو ایک ٹارگٹ کلنگز ہوئی جن میں 86عام افراد اور 15پولیس اہلکار نشانہ بنے، عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ایک کاروائی کے دوران لشکر مہدی کے تین کارکن گرفتار ہوئے جنہوں نے 24علما کا قتل قبول کیا ، اس موقع پر سی سی پی او کوئٹہ نے عدالت کو بتایا کہ کوئٹہ میں شیعہ اور دیوبندی مسلک کے علما ، سندھی اور پنجابی آبادکاروں کو ماراجارہا ہے، عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس سال کے بجٹ میں فرانزک لیبارٹری کی منظوری دے دی گئی ہے جبکہ مختلف واقعات میں 56ٹاگٹ کلرز بھی مارے گئے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت نے یہ سب کچھ کیا مگر نتیجہ کیا نکلا، سی سی پی او کوئٹہ نے عدالت عظمی میں بیان تھا کہ ہم عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے مرنے اور مارنے کو تیار ہیں اور یہ آنے والا وقت بتائیگا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پروفیشنل انداز میں کام کررہے ہیں اور جلد کامیاب ہوں گے، دوسری جانب چیف سیکرٹری نے عدالت عظمی میں اعتراف کیا کہ امن و امان کے حوالے سے چیزیں بہت اچھی نہیں وہ حالت جنگ میں ہیں، فرقہ ورانہ دہشت گردی، کالعدم تنظیموں سے لڑائیاں ہیں، دہشت گرد اگر پولیس یا لیویز تھانہ پر حملہ کریں تو وہ پیچھا کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے،واشک اور آواران میں تخریب کار انتظامیہ کو دھمکاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ وہ پولیس اور لیویز کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف سی کو کیوں ہر جگہ استعمال نہیں کرتے، ان کے پاس مکمل وسائل ہیں ، ایک موقع پر چیف جسٹس نے وزیراعلی بلوچستان کے بھتیجے کے قتل کے کیس کے بارے میں بھی دریافت کیا کہ اس کا کیا بنا اور پولیس کیا کررہی ہے، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہر کیس پولیس کیلئے اہم اور صوبے میں ہونے والا ہرقتل میر حقمل جیسا ضروری ہے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ ایک اندھا کیس ہے اس میں کوئی سراغ ان کے پاس نہیں ماسوائے کہ اس فیملی کی کوئی دشمنی ہو، تاہم عدالت نے حکم دیا کہ انہیں کیس کو پروفیشنل انداز میں دیکھنا ہوگا،کالعدم تنظیموں کے حوالے سے عدالت نے کہا کالعدم تنظیموں کو اہم کردار فنڈنگ کا ہے کیا حکومت نے کبھی انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اور اگر ان تنظیموں کی فنڈنگ روکی جاتی تو سب رک جاتا?ایف سی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایف سی پر لگائے جانے والے الزامات سازش ہیں، ان کیمرا بریفنگ کی وقت دیں۔دوران سماعت عدالت نے سیکرٹری داخلہ بلوچستان پر قتل ہونے والے افراد کا اعداد و شمار نہ رکھنے پر برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس سیکرٹری داخلہ بلوچستان سے پوچھا کہ اتنے لوگ مارے گئے ہیں تو اس بارے میں پولیس نے کیا تفتیش کی ہے۔اس پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن بلوچستان نے جواب دیا کہ پولیس کے پاس تکنیکی وسائل نہیں ہیں۔اس کے علاوہ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استسفارہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلی اسلم رئیسانی کے بھتیجے اکمل رئیسانی کا قاتل کون ہے؟عدالتِ عظمی نے بختیار ڈومکی کی اہلیہ کے قتل کے بعد کی پیش رفت پر بھی سوالات کئے۔ چیف جسٹس ا فتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کو ایک ہفتے میں پیش کیا جائے ۔ عدالت نے آئی جی ایف سی کو طلب کر لیا اسی دوران ڈی آئی جی ایف سی بریگیڈیر شہزاد عدالت میں پیش ہوئے عدالت نے ان سے کہا کہ مہران بلوچ کو پیش کیا جائے۔ بریگیڈیر شہزاد نے عدالت کو بتایا کہ مہران بلوچ ایف سی کی تحویل میں نہیں ہے ۔ عدالت نے کہا کہ لاپتا افراد کسی کیس میں ملوث ہیں توقانونی کارروائی کی جائے۔ معاملات کو طول دینے سیحالات خراب ہوں گے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ بلوچستان کی محرومی ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان کا کہنا تھا کہ سیکٹرانچارج آئی ایس آئی نےیقین دلایا ہے جس افسرکی ضرورت ہوئی پیش کریں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیانات سے ہماری تسلی نہیں ہوگی چاہتے ہیں تو آرڈر لکھ دیتے ہیں۔ہماری دلچسپی لوگوں کی بازیابی میں ہے۔ وزارت دفاع کے نمائندے منیب پراچہ کا کہنا تھا کہ ایف سی بطور ادارہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث نہیں۔ایف سی افسر نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا۔ معلومات ملنے پرکارروائی کرتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس شخص کو لایا جائے جو جواب دے سکے۔ حکم کے باوجود لاپتہ افرا دکو پیش نہیں کیاجارہا۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اﷲ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افرد کی فہرست میں کمی آئی ہے ابھی تک 18لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں جبکہ سات کی نعشیں ملی ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمانڈر شہباز جائیں آج (بدھ ) کو فراری کیمپ سے چھ بندوں کو لے آئیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ چھ بندوں کو نہیں لا سکتے ہمارا ڈی آئی جی بیرون ملک سے بندے کو لے آتا ہے وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ عبد الغفار اور ڈاکٹر اکبر مری افغانستان کے فراری کیمپوں میں موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ کے ذریعہ افغان حکومت سے رابطہ کر کے ان افراد کو واپس لانے کی کوشش کی جائے اس موقع پر لاپتہ شخص عبد الغفار کی رشتہ دار خاتون موجود تھیں ۔انہوں نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فراری کیمپوں کے نام پر ایک نیا ڈرامہ شروع کر رکھا ہے سیکرٹری داخلہ بلوچستان نصب اﷲ خان بازئی نے تین افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ تین افراد کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں تو شامل ہیں لیکن ان کے کوائف موجود نہیں جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جان علی عبد الرحمن اور خمیا خان کے ناموں کو لاپتہ افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے۔ عدالت نے مہران بلوچ اغواء کیس میں ڈی آئی جی ایف سی کو فوری طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا بریگیڈیئر فرخ شہزاد نے عدالت کو بتایا کہ مہران بلوچ ایف سی کی تحویل میں نہیں ۔عدالت نے ڈی آئی جی ایف سی کو حکم دیا کہ وہ مہران بلوچ کو آج (بدھ) کو عدالت میں پیش کریں۔

تبصرے