ممبئی حملوں کے ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھارت کا دورہ کرنے والے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو وقت کا ضیاع اورقانونی حیثیت سے عاری قرار دے کر مسترد کردیا ہے


راولپنڈی(ثناء نیوز ) ممبئی حملوں کے ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھارت کا دورہ کرنے والے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو وقت کا ضیاع اورقانونی حیثیت سے عاری قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ وکیل صفائی ریاض اکرم چیمہ نے کہا ہے کہ آٹھ رکنی کمیشن کے ارکان نے بھارت میں چار عینی شاہدین پر جرح کے بغیر اپنی تحقیقات رپورٹ تیار کی تھی اس لیے عدالت نے اسے مقدمے کا ریکارڈ بنانے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان میں جن سات ملزمان کے خلاف اس مقدمے کی سماعت کی جا رہی ہے ان میں کالعدم لشکر طیبہ کا ایک مبینہ کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی بھی شامل ہے جس پر نومبر 2008 میں بھارتی اقتصادی مرکز پر دہشت گردی کی اس کارروائی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔تین دن تک جاری رہنے والے ان حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کے اجمل قصاب نامی ایک پاکستانی حملہ آور کو بھارتی پولیس نے زندہ پکڑا تھا۔استغاثہ اور صفائی کے وکلا پر مشتمل پاکستانی کمیشن نے مارچ میں بھارت کا دورہ کیا تھا لیکن ریاض چیمہ کہتے ہیں کہ بھارتی حکام نے اہم گواہوں بشمول اجمل قصاب سے جرح کی اجازت نہیں دی تھی۔۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر ان چار بھارتی سرکاری اہلکاروں پر بیانات کے دوران جرح نہ کرنے سے متعلق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کوئی معاہدہ ہے تو اس کو ختم کیا جائے۔یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر سات رکنی کمیشن اس سال سولہ مارچ کو ممبئی گیا تھا جہاں پر انہوں نے چار بھارتی سرکاری اہلکاروں کے بیانات ریکارڈ کیے تھے ان میں خاتون مجسٹریٹ شری متی راما جے لتھ اور ممبئی حملوں کے مقدمات کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ رامیش مہلے بھی شامل ہیں۔خاتون مجسٹریٹ نے ممبئی حملوں میں واحد زندہ بچ جانے والے مجرم اجمل قصاب کا اقبالی بیان ریکارڈ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جن دوا فراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ان وہ ڈاکٹر شامل ہیں جنہوں نے ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے پوسٹ مارٹم کیے تھے۔ ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے ذکی الرحمن لکھوی، شاہد جمیل اور یونس انجم کے وکلا خواجہ حارث اور ریاض اکرم چیمہ نے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ممبئی میں قیام کے دوران مذکورہ چار افراد کے بیانات ممبئی کے چیف میٹروپولیٹن آفس میں ریکارڈ کیے گئے تھے تاہم اس کے بعد جب ان پر جرح کی جانے لگی تو انہیں روک دیا گیا اور بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہے کہ ان افراد پر جرح نہیں ہوگی اور محض ان کے بیانات ہی قلمبند کیے جائیں گے۔ممبئی حملہ سازش تیار کرنے کے مقدمے میں سرکاری وکیل چوہدی ذوالفقار نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی بھارتی حکام کو بتایا تھا کہ جب تک ان افراد پر جرح نہیں ہوگی اس وقت تک عدالتی کمیشن کی کارروائی غیر موثر رہے گی۔درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ان افراد کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد ایک ڈوزئیر (دستاویزات) کی شکل میں پاکستان بھیج دی گئیں۔انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ محض ان چار بھارتی اہلکاروں کے بیانات ریکارڈ کرنے سے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے اس کے لیے ان پر جرح ہونا بھی ضروری ہے۔یاد رہے کہ ممبئی حملہ سازش کے مقدمے میں گرفتار سات افراد پر فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے اور اب تک حکومت نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچ جج صاحبان کو تبدیل کیا ہے۔ جن میں سخی محمود کہوٹ، رانا باقر علی،ایم اکرم اعوان، نثار محمد خان اور شاہد رفیق شامل ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جلد سنایا جائے کیونکہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا تشخص خراب ہو رہا ہے۔ 
ممبئی حملوں کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ مسترد

تبصرے