سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف مقدمات کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ نیا قانون بادی النظر میں انصاف کی فراہمی کے عمل کے خلاف نظر آتا ہے


اسلام آباد(ثناء نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف مقدمات کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ نیا قانون بادی النظر میں انصاف کی فراہمی کے عمل کے خلاف نظر آتا ہے۔ توہین عدالت کے قانون کو صرف جج تک محدود کر دیا گیا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے منافی ہے۔ عدلیہ کے پاس توہین عدالت کا قانون موثر ہتھیار ہے جو آئین پر عملدر آمد کرانے کے لیے ہوتا ہے ذاتی مقاصد کے لیے نہیں۔ ہر کسی کو استثنیٰ دینے سے قانون کی حکمرانی نہیں رہے گی۔ توہین عدالت کے سخت قانون کے بغیر عدالتی فیصلے صرف نمائشی بن جائیں گے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ توہین عدالت قانون دو ہزار بارہ میں ایک مراعات یافتہ طبقے کو استثنی دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔سپریم کورٹ میں منگل کو توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا دوران سماعت ریمارکس میں کہنا تھاکہ قانون سازی کا ہمیشہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور جب پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے بلایا جاتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ کسی بھی قانون پر تفصیلی غور ہو گا اور کمیٹیوں کا طریقہ کا رہوتاہے چیف جسٹس نے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ وہاں دو دو تین تین سال کسی ایک معاملے پر بحث چلتی ہے اس کے بعد جا کر قانون بنتاہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے امریکہ میں بننے والے قانون کی مثال دی کہ اس قانون کا اطلاق 2014میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ اگر آنے والی پارلیمنٹ اگر چاہے تو اس میں ردو بدل کر سکتی ہے چیف جسٹس نے توہین عدالت قانون میں کچھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی ان کا کہناتھاکہ اس میں وہ شک کافائدہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں قانون بنانے میں ڈرافٹمیں کی غلطی تھی جس کی وجہ سے کچھ خامیاں رہ گئیں جبکہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمود الحسن کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ شاید کسی سابقہ فیصلے کو تبدیل کرنے کیلئے قانون میں ایک شک شامل کی گئی ہے جس کا جائزہ لینا ضروری ہے حامد خان کا کہناتھاکہ سزا کے بعد اپیل کی صورت میں سزا کو معطل کرنے کامعاملہ بھی درست نہیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب قانون آیا تو رولز معطل ہوئے کتنا وقت بحث کی گئی جبکہ جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اس قانون میں مخصوص کلاس کو اثتثنیٰ دینے کی کوشش کی گئی چی فجسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہیں عدالت کے آرڈیننس 200کو 18ویںترمیم میں تحفظ ہیں اور7 1ویں ترمیم کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی پارلیمنٹ نے 2003کا آرڈیننس اس لئے بچایا کیونکہ یہ آئین کے مطابق تھا انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے راتوں رات جملہ بازی میں قانون تبدیل کرنا درست روایت نہیں اور پارلیمنٹ کا قانون بنانے کا مقصد بیان کرنا پڑتا ہے ہمیں ملک کا پارلیمانی نظام حکومت لانا ہے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو اس موقع پر جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ اپوزیشن نے اس قانون پر بحث کرنے کیلئے واک آؤٹ کیا تھا چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی تو کیا اس نقطہ کو وجہ بناکو قانون کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے اب نہیں ہو سکتا کہ آپ اٹھ کر کہیں کہ نیا قانون لانا ہے 2003کے تحت لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں پھر نیا قانون لانے کا کیامقصد ہے کوئی قانون خود بخود نہیں بنتا وجہ بیان کرنی پڑتی ہے اور ایک قانون کی موجودگی میں دوسرا قانون لانے کی وضا حت کرنا ہوتی ہے 1976کا توہین عدالت کا قانون حکومت نے خود ختم کیا انہوں نے کہا کہ کسی پر الزام نہیں دیتے یہ لگتا ہے قانون کا مسودہ بنانے والے کی غلطی ہے حکومت کو بالآخر اچانک توہیں عدالت کے قانون میں تبدیلی کا خیال کیسے آ گیا انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ایک قانون بنانے سے پہلے کئی سال بحث ہوتی ہے۔ایک درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں مشاورت اور غورو فکر نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پوچھا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مشاورت نہیں کی گئی۔ درخواست گزار نے جواب دیا کہ جس وقت اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو پوری اپوزیشن احتجاج کرتے ہوئے واک آٹ کر گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر آپ کے پاس پارلیمانی کارروائی کا کوئی ریکارڈ موجود ہے تو ٹھیک ورنہ میڈیا رپورٹس پر انحصار نہ کریں ۔۔ میڈیا والے بعض نکات کو اپنی مرضی کے مطابق پروموٹ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے احتجاج کو پیمانہ مان لیا جائے تو بیشتر قوانین کالعدم ہو جائیں گے۔ کیا اس بیناد پر کسی قانون کو ختم کیا جا سکتا ہے۔. بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی تو درخواست گزار وکلا نے دلائل جاری رکھے، لیاقت قریشی ایڈووکیٹ نے کہاکہ قانون سازی کے وقت اس پر درکار بحث اور غور فکر نہیں ہوا، قانون کا بل ، پارلیمنٹ میں آیا تو اپوزیشن نے بائے کاٹ کردیا تھا. چیف جسٹس نیاستفسار کیا کہ کیا اس بنیاد پر کسی قانون کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ غور و فکر نہ ہونے کی شہادت کیا ہے؟ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ یہ دلیل مان لیں تو اپوزیشن کے احتجاج سے تو پھر ہر قانون ختم ہوجائے گا . جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ مخصوص مراعات یافتہ طبقہ کو قانون سے استثنی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ نئے قانون کے بعد عدالت صرف عام افراد کے لیے رہ جائے گی اس قانون سے ایک مراعات یافتہ طبقہ بنا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے پاس توہین عدالت قانون ایک ہتھیار ہے۔اس قانون کا اطلاق عملدر آمد کے لیے ہوتا ہے ذاتی مقاصد کے لیے نہیں۔ نئے قانون میں آئین کے آرٹیکل248کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ قانون عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ کیونکہ اسے صرف جج تک محدود کر دیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 204 سے متصادم ہے۔ اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو استثنیٰ دینے سے قانون کی حکمرانی نہیں رہے گی۔ توہین عدالت کا معاملہ ججز کا نہیں بلکہ انصاف تک رسائی کا معاملہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی 80 ہزار رٹ موجود ہیں اور یہ رٹ تو ہوتی ہی سرکار کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے سخت قانون کے بغیر عدالتی فیصلے نمائشی بن جائیں گے۔ عام آدمی کو ریاست کے عہدیداروں کے خلاف کوئی تحفظ نہیں رہے گا۔ رٹ میں ریاست کے خلاف صرف غریب آتا ہے، غریب آدمی آ کر کہتے ہیں کہ ریاست ان کا بنیادی حق چھین رہی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت میں آ کر سرکار کہہ دے گی کہ جو کرنا ہے کر لو۔مجھے استثنیٰ حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ایک مساوی دستاویز ہے ہم اسے پڑھتے ہی نہیں۔بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی کر تے ہوئے درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کر لیں۔

تبصرے