سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں توہینعدالت کے نئے قانون پر بحث کے دوران آئین کی شقوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس قانون کو لانے کی کیا وجوہات تھیں


اسلام آباد(ثناء نیوز ) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں توہینعدالت کے نئے قانون پر بحث کے دوران آئین کی شقوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس قانون کو لانے کی کیا وجوہات تھیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو سو چار کے تحت کسی کو بھی استثنیٰ نہیں ہے اور جو کوئی بھی توہین عدالت کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی بڑے آدمی کو توہین عدالت سے ماورا قرار دیا تو دوسرے بھی اس کا تقاضا کریں گے یہ کام نواز شریف دور میں بھی کیا گیا تھا اس قانون سے عدالتی حکم نہ ماننے کا رجحان فروغ پائے گا اور عدالتی فیصلوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑ ے سے زیادہ نہیں رہے گی۔اگر کوئی عدلیہ کو برا بھلا کہے تو کیا عدالت بے بس ہے کہ کچھ نہ کرے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی توہین عدالت کرے اور اپیل کر کے بچ نکلے ۔جمعے کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ پارلیمنٹ میں اس نئے قانون پر ہونے والی بحث سے متعلق پیش کیے گئے ریکارڈ میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ توہین عدالت کے قانون کو تبدیل کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی اور موجودہ قانون آئین کی کن شقوں سے متصادم ہے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر 28آئینی درخواستوں کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار چوہدری امجد کے وکیل چوہدری افراسیاب نے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ جو دلائل دیئے گئے ہیں وہ دہرائے نہ جائیں۔ سارے درخواست گزاروں کے وکیل اپنے دلائل فوٹو کاپی کروا کر عدالت میں جمع کرائیں۔ چوہدری افراسیاب کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آئین کی سکیم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منتخب عوامی نمائندوں نے یہ آئین بنایا ہے اور عوام نے نمائندوں پر اعتماد کیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس عوام کے ملازم ہیں اس عوام نے اراکین پارلیمان کو مینڈیٹ دیا ہے کہ ہم آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ ہمارے معاملات کو چلائیں۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ جنہوں نے آئین بنایا وہ نظریاتی لوگ تھے جب میں آئین کو دیکھتا ہوں تو میری نظر میں ان کا احترام بڑھ جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، محمود قصوری اور دیگر جو لوگ بھی آئین بنانے میں شامل تھے قابل احترام ہیں کیونکہ انہوں نے متفقہ طور پر ملک کو آئین دیا۔ چوہدری افراسیاب کا کہنا تھا کہ آئین کا حلیہ آمروںنے بگاڑا۔ عدالتیں اسی آئین کے تحت فیصلے دیتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر کوئی دورائے نہیں ہے کہ عدلیہ آزاد ہو گی اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔چوہدری افراسیاب کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو اٹھائے بغیر عدلیہ کی آزادی پر بات کریں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام چلے۔ پارلیمنٹ میں توہین عدالت کے نئے قانون پر بحث کے دوران آئین کی شقوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس قانون کو لانے کی کیا وجوہات تھیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو سو چار کے تحت کسی کو بھی استثنی نہیں ہے اور جو کوئی بھی توہین عدالت کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ ۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ کیا آئین سازوں کے نزدیک توہین عدالت سے تحفظ اتنا مقدس ہے کہ سادہ اکثریت کے ذریعے اس کی تبدیلی کو روکا گیا۔ افراسیاب کا کہنا تھا کہ یہ آئین کا نوگو ایریا ہے اس قانون کو سادہ اکثریت سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صرف تعریف میں تبدیلی کی بنیاد پر توہین عدالت کا نیا قانون کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا قانون صرف کاروائی کو ریگولیٹ کر نے کے لیے ہے اس کو دو تہائی اکثریت سے بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آئین میں توہین عدالت کی تعریف کو دو تہائی اکثریت سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟۔ افراسیاب نے کہا کہ آئین ساز عوام کے حقوق کے بارے میں بہت محتاط تھے اس لیے آئین میں توہین عدالت کے قانون کے اطلاق کے لیے ہر شخص کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اس قانون میں عوامی عہدیدار کو کو ئی استثنیٰ نہیں دیا گیا اس لیے آئین میں آرٹیکل 248 دیا گیا ہے تا کہ حکومت کے معاملات کو چلایا جاسکے۔ افراسیاب کا کہنا تھا کہ یہ قانون بنا کر آئین کے آرٹیکل 204 اور 248 کو تبدیل کر نے کی کوشش کی گئی ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا ہے تو یہ قانون غیر آئینی ہے ۔ افراسیاب چوہدری کا کہنا تھا کہ اس رٹ کا کیا فائدہ ہے جس کے فیصلہ پر عمل در آمد نہیں ہونا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ قانون کسی کی ذات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عدالتی فیصلوں پر عملدر آمد کے لیے ہے۔ افراسیاب چوہدری کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمان نے ملک کے آئین کا تحفظ کر نے کا حلف اٹھایا ہے وہ آئین کے نوگو ایریا میں ترمیم نہیں کر سکتے اور توہین عدالت قانون آئین کا نوگوایریا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے پارلیمنٹ کی کاروائی کا جائزہ لیا جس میں دونوں جانب سے بحث میں حصہ لیا گیا ہے لیکن تشویش کی بات ہے کہ قانون سازی فہرست کے آئٹم 55 کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اسی طرح نئے قانون کی ضرورت کے حوالے سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی علم نہیں کہ اس کی کیا وجہ تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین 5 مہینے کی بحث کے بعد تشکیل دیا گیا اور اپریل 1973 میں 200سے زائد ترامیم کے بعد آئین پاس کیا گیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس قانون میں تبدیلی پر بھی بحث ہو اور یہ بحث میڈیا اور عوام میں بھی ہونی چاہیے تھی۔ افراسیاب کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک خاص شخص کو فائدہ دینے کے لیے بنایا گیا ہے اور مخصوص اہداف کے حصول کے لیے بنایا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 63-G کے منافی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی تاریخ میں میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کہیں لکھا ہو کہ فلاں شخص کو سزا نہیں ہو گی یہ لکھا جاتا ہے کہ اس جرم کی یہ سزا ہو گی۔ چیف جسٹس نے افراسیاب سے کہا کہ آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب پاپڑ کسی خاص مقصد کے لیے بیلے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے رہنما انجینئر جمیل نے دلائل شروع کیے تو عدالت نے ان کو سیاسی باتیں کر نے سے منع کر دیا۔ انجینئر جمیل کا کہنا تھا عدالت پورے قانون کو نہیں صرف ان دفعات کو کالعدم قرار دیا جائے جو بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔ اس قانون میں عدالت کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے ہیں تا کہ بڑے لوگوں پر گرفت نہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین میں قواعد بنانے کا اختیار عدالت کو دیا نئے قانون میں یہ اختیار وفاقی حکومت کو دیا گیا اور عدالت سے غیر مخصوص لوگوں کو سزا دینے کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پارلیمنٹ ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو قر آن و سنت کے خلاف ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ ممالک میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں لیکن اسلامی ملک میں ایسا قانون ہے ۔ حکمرانوں کو خود شرم آنی چاہیے۔ اس بات پر چیف جسٹس نے انجینئر جمیل کو کہا کہ ایسے الفاظ نہ استعمال کریں جس پر انہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے انجینئر جمیل کا کہنا تھا کہ آئین کی پابندی ہر شہری پر لازم ہے۔ انجینئر جمیل کے دلائل مکمل ہو نے کے بعد سندھ بار کونسل کے وکیل رشید اے رضوی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس رنگین قانون کو کالعدم قرار دے کیونکہ اس قانون کے تخت توہین عدالت کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس چلی گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ یہ دیکھنا پڑے گا کیا یہ صفر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ س تک محدود ہے یا دیگر عدالتوں تک بھی ہے۔ رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ توہین عدالت قانون کے حوالے سے پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود ہے۔ پارلیمنٹ اس عاملے میں ریگولیٹر کا کردار رکھتی ہے۔ رشید اے رضوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور توہین کے مرتکب کے درمیان ہوتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس قانون کے بغیر عدالت بے اختیار ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ مقصد ہے کہ عدالتیں بے یارومددگار رہیں۔ اگر کوئی عدلیہ کو برا بھلا کہے تو کیا عدالت بے بس ہے کہ کچھ نہ کرے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی توہین عدالت کرے اور اپیل کر کے بچ نکلے ۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ یہ عدلیہ کا منصبی اختیار ہے کہ توہین عدالت کی کاروائی کرے۔ آئین کو غیر موثر نہ ہو نے دیا جائے جس نے یہ سزا قصداً رکھی ۔ جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ توہین عدالت صرف آئینی ہی نہیں بلکہ آئین کا دیا ہوا اختیار ہے۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ اس قانون سے ایک عام شہری کا حق بھی متاثر ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 69 میں پارلیمنٹ کے غیر قانونی افعال کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ یہ تحفظ صرف پارلیمنٹ اور اس کی کاروائی کا ہے۔ جیسے عدلیہ قانون سازی نہیں کر سکتی اسی طرح پارلیمنٹ حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے قانون کے ذریعے اپیل کر نے والے کو عدالتی فیصلے کے خلاف حکم امتناعی دے دیا گیا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی بڑے آدمی کو ماورا قرار دیا تو دوسرے بھی اس کا تقاضا کریں گے یہ کام نواز شریف دور میں بھی کیا گیا تھا اس قانون سے عدالتی حکم نہ ماننے کا رجحان فروغ پائے گا اور عدالتی فیصلوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑ ے سے زیادہ نہیں رہے گی۔ رشید اے رضوی کے بعد درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے جبکہ توہین عدالت کے قانون کے بغیر انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے قر آن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ اسلامی تاریخ میں سپہ سالار کو بھی عام جج کے حکم کا پابند بنایا گیا ہے۔ عوامی اعتماد کی بنیاد پر اقتدار میں آنے والوں کو قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنے بھی میرے بنیادی حقوق ہیں وہ اس نئے توہین عدالت کے قانون سے متاثر ہوتے ہیں اور اگر ملک میں ایمر جنسی بھی لگتی ہے تو آئین میں دیا گیا بنیادی حقوق کا آرٹیکل 4موجود رہتا ہے۔ عدالتی حکم پر عملدر آمد کے لیے اخلاقی اتھارٹی یا توہین عدالت کا قانون ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اپنے اقدار کو مستحکم کیوں نہیں کرتے ہر مرتبہ ڈنڈے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے عدالتیں قانون کے استعمال میں بہت مدھم ہیں ۔ یہ کیا بات ہے کہ حوالدار کو سزا دے دی جائے اور بڑے بندے کے معاملے میں سوچ میں پڑ جائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہماری کون سی فوجیں ہیں کہ عملدر آمد کروا سکیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام بنیادی حقوق داؤ پر لگے ہیں۔ بنیادی حقوق صرف ریاستی طاقت کے خلاف تحفظ کے لیے دیئے گئے ہیں اور قوانین کے ذریعے ریاست اپنی قوت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ عدالتیں اسی تجاوز کو روکنے کا اختیار رکھتی ہیں اگر اختیارات نہ ہوں تو عدالتیں یہ کام نہیں کر سکتیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ پہلے قانون میں ایسی کوئی خامی تھی جس کے باعث یہ نیا قانون لایا گیا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیا قانون آنے پر پہلے اس کے مقاصد جاننا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی بحث سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ توہین عدالت قانون 2003 میں کیا خامی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت قانون 2003 کو منسوخ کر کے ختم کر نے کی بھی وجوہات بھی سمجھ نہیں آ سکیں۔ نیا قانون اسی صورت لایا جاتا ہے جب پرانا منسوخ کیا جاتا ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ یہ قانون ذیلی عدالتوں کے ججوں کو سپریم کورٹ کے ججز سے زیادہ اختیار دیتا ہے یہ قانون توہین عدالت کے مرتکب کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر توہین عدالت کر سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 500 سالہ تاریخ میں کوئی ایک ایسا قانون بتا دیا جائے جس میں کہا گیا ہو کہ توہین عدالت کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئے توہین عدالت قانون کا موجودہ وزیر اعظم سے کوئی تعلق نہیں ہے کوشش ہے کہ جمہوری نظام چلتا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برائیاں خود ہی ٹھیک ہوتی رہیں گی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عدلیہ آزاد ہو گی۔ آئین نے سب کو متحد رکھا ہوا ہے یہ قصے، کہانیوں کا وقت نہیں ۔ ملک اس دور سے نہیں گزر رہا کہ ہم تھیوریاں لے کر بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ نے آئین کے تحت حلف لے رکھا ہے قانون ساز ی کر تے وقت آئین کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ ارکان کے پارلیمنٹ عوام کے خادم کے سوا کچھ نہیں ہیں ہم یہ بھول جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ وکلاء کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہو نے پر مقدمہ کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے