سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینئر صحافیوں حامد میر اور ابصار عالم کی جانب سے میڈیا احتساب کمیشن کے قیام کے لیے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران صوبہ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات نے انکشاف کیا ہے کہ اشتہاری ایجنسی میڈاس کے خلاف آڈیٹر جنرل نے 65 کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن کرپشن کی نشاندہی کی ہے

اسلام آباد(ثناء نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینئر صحافیوں حامد میر اور ابصار عالم کی جانب سے میڈیا احتساب کمیشن کے قیام کے لیے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران صوبہ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات نے انکشاف کیا ہے کہ اشتہاری ایجنسی میڈاس کے خلاف آڈیٹر جنرل نے 65 کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن کرپشن کی نشاندہی کی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور وفاقی حکومت دو الگ الگ ادارے ہیں ان دونوں کی جانب سے ایک ہی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ میڈاس اور بحریہ ٹاؤن کی رجسٹریشن کا ریکارڈ آج (جمعرات کو) عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے مقدمہ میں فریق بننے کے لیے دائر دیگر چار درخواستیں بھی سماعت کے لیے منظور کر لی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے بدھ کو مقدمات کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سینئر اینکر پرسن حامد میر، ابصار عالم ، عاصمہ شیزاری ، مظہر عباس ، ارشد شریف اورسیکرٹری اطلاعات پنجاب محی الدین وانی عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے عابد ساقی ایڈووکیٹ نے تحریری جواب عدالت میں پیش کیا جس پر جسٹس خواجہ ایس خواجہ نے اعتراض کرتے ہوئے کیا کہ عابد ساقی تو پیمرا کے وکیل ہیں جو کہ ایک آزاد ریگولیٹری اتھارٹی ہے اس کا وکیل وفاق کا وکیل کیسے بن سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ حکومت خود بھی میڈیا کے ادارے چلا رہی ہے اور ان اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بھی پیمرا ہی واحد ادارہ ہے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ریگولیٹ کرنے والے ادارہ کا ترجمان ریگولیٹ ہونے والے ادارے کی ترجمانی کیسے کر سکتا ہے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ اگر دونوں پارٹیوں کے مابین تنازعہ ہو سکتا ہے اس صورت میں کیا ہو گا۔ اس لیے وفاق کے وکیل اس معاملہ پر نظر ثانی کر کے عدالت کو بتائیں۔ اس موقع پر وفاق کے وکیل عابد ساقی کا کہنا تھا کہ سینئر صحافیوں نے ایک باعزت وزیر پر سنگین الزامات لگائے ہیں کہ وہ سیکرٹ فنڈز استعمال کر کے میڈیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی وکالت کے حوالے سے انہیں ہدایات لینے کی مہلت دی جائے تو عدالت نے کہا کہ انہیں ایک روز کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات پنجاب محی الدین وانی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اشتہاری کمپنی میڈاس کے خلاف 21 کروڑ روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی اور اس حوالے سے ریفرنس ایف بی آر اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو بھجوائے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تاہم آڈیٹر جنرل نے انوسٹی گیشن آڈٹ کے ذریعے میڈاس کی 65 کروڑ روپے کی نشاندہی کی ہے اس لیے آڈیٹر جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا جائے ۔ محی الدین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اینٹی کرپشن میں میڈاس کے خلاف مقدمہ بھی درج کروا رکھا ہے ۔ جس میں میڈاس کے چیف ایگزیکٹو انعام اکبر پنجاب سے مفرور ہیں جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایک صوبے میں میڈاس پر الزام ہے جبکہ دوسری جانب اس کے ساتھ ڈیلنگ کی جاری ہے۔ پنجاب بھی ملک کا حصہ ہے اس موقع پر عدالت نے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے حکام کو طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے میڈاس اور بحریہ ٹاؤن کی رجسٹریشن کے بارے میں ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بحریہ ٹاؤن کا ریکارڈ لے کر آئے ہیں جس پر عدالت نے انہیں آج جمعرات کو میڈاس کا ریکارڈ بھی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ اس موقع پرو فاق کے وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزارت اطلاعات کے پاس کسی بھی قسم کے خفیہ فنڈز موجود نہیں ہیں اور وزارت اطلاعات کا مکمل بجٹ 5 ارب57 کروڑ 5ہزار اور 23 روپے ہے جبکہ ایک کروڑ 72 لاکھ روپے کا فنڈ ایسا ہے کہ جس کا آڈٹ نہیں کیا جاتا اور یہ فنڈ غریب و مستحق صحافیوں کی امداد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اتنے تھوڑے سے فنڈسے وزارت اطلاعات کسی صحافی کو کیسے خرید سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے صحافیوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایک انگریزی روزنامے میں ایسے فنڈز کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تھی اگر خفیہ فنڈز نہیں تھے تو وزارت اطلاعات نے اس خبر کی تردید کیوں نہیں کی خبر کی تردید نہ ہونے کی وجہ سے یہ خبر بطور ثبوت پیش کی گئی ہے۔ اس موقع پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں خفیہ فنڈز کی رقم نہیں بتائی تاہم خفیہ فنڈز کے حوالے سے خبر بجٹ کے دنوں میں شائع ہوئی جس کی وزارت کی جانب سے تردید نہیں کی گئی۔ انہوں نے ولی خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ میں عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ جس خبر کی تردید نہ کی جائے وہ خبر بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہے ۔عدالت نے حامد میر سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے وفاق کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کا جائزہ لیا ہے تو حامد میر کا کہنا تھا کہ انہیں وفاق کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کی کاپی نہیں ملی جس پر عدالت نے حامد میر سے کہا کہ وہ وفاق کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کو بھی دیکھ لیں اس موقع پر درخواست گزار ا بصار عالم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور سرکاری ٹی وی پر ان کے خلاف مہم جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب بھی دینا چاہتے ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ دونوں فریقین معاملہ کو دیکھ کر اپنے جوابات آج جمعرات تک عدالت میں جمع کرائیں اور درخواست گزار اپنی ترمیم شدہ درخواستیں بھی آج عدالت میں جمع کرا دیں۔ اس موقع پر ایف بی آر کی جانب سے رانا شمیم ایڈووکیٹ پیش ہوئے تو عدالت نے سیکرٹری اطلاعات پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ میڈاس کے خلاف اپنے ریفرنس کی کاپی ایف بی آر کے وکیل و دیگر فریقین کو دیں اس موقع پر سینئر صحافی مظہر عباس کی جانب سے سپریم کورٹ بار کے صدر یاسین آزاد نے عدالت سے استدعا کی کہ مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی نہ کی جائے کیونکہ وہ یہاں موجود نہیں ہوں گے عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے مقدمہ کی مزید سماعت آئندہ پیر 17 ستمبر تک ملتوی کر دی۔




Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے