شام کے منحرف جنرل مناف طلاس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پہلی مرتبہ انکشاف کیا ہے کہ فرانس کے خفیہ ایجنٹوں نے انھیں ملک سے فرار میں مدد دی تھی۔جنرل مناف طلاس نے فرانس کے ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا

پیرس(ثناء نیوز )شام کے منحرف جنرل مناف طلاس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پہلی مرتبہ انکشاف کیا ہے کہ فرانس کے خفیہ ایجنٹوں نے انھیں ملک سے فرار میں مدد دی تھی۔جنرل مناف طلاس نے فرانس کے ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”فرانس کی انٹیلی جنس سروسز نے مجھے شام سے باہر لے جانے میں مدد کی تھی اور اس پر میں ان کا شکرگزار ہوں”۔ وہ چھے جولائی کو شام سے بیرون ملک چلے گئے تھے اور وہ گذشتہ سال مارچ کے وسط سے صدر بشارالاسد کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے دوران ان کا ساتھ چھوڑنے والے فوج کے پہلے اعلی عہدے دار تھے حالانکہ جنرل مناف ان کے قریبی معاونین میں شمار ہوتے تھے اور ان کے بچپن کے دوست بھی تھے۔مناف طلاس شام کی ایلیٹ ری پبلکن گارڈز کے جنرل رہے تھے۔وہ شام کے سابق وزیر دفاع مصطفی طلاس کے بیٹے ہیں جو 1970 کے عشرے سے 2004 تک اس عہدے پر فائز رہے تھے اور وہ صدر بشارالاسد کے والد مرحوم حافظ الاسد کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔وہ اس وقت فرانس میں مقیم ہیں اور ان کے والد اور بیوہ بہن بھی پیرس میں رہ رہے ہیں۔تاہم کچھ عرصہ قبل فرانسیسی وزیرخارجہ نے اس بات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا تھا کہ جنرل مناف طلاس پیرس یا ملک کے کسی اور علاقے میں مقیم ہیں۔شام کے انٹیلی جنس ذرائع نے جولائی کے اوائل میں جنرل مناف کے ترکی پہنچنے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ اگر انھیں پکڑنے کا کہا جاتا تو ایسا کیا جاسکتا تھا۔ادھر شام میں باغیوں نے شورش زدہ شمالی شہر حلب میں بیس فوجیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ہے جبکہ فرانس نے باغیوں کے لیے براہ راست مالی اور مادی کی ترسیل شروع کردی۔لندن میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے اطلاع دی ہے کہ باغی جنگجووں نے حلب کے مشرقی علاقے ہنانو میں فوجیوں کو ایک فوجی کمپاونڈ پر حملے کے دوران گرفتار کیا تھا۔باغیوں نے انھیں ایک قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماری ہیں۔اس وقت ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پر بھی پٹیاں باندھی گئی تھیں۔ یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی اور آبزرویٹری کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں بیس لاشیں ایک فٹ پاتھ پر پڑی ہیں۔بیشتر مہلوکین کے سر خون میں لت پت ہیں اور ان میں سے بعض نیفوجی وردی کے بجائے جینز کی پتلونیں پہن رکھی ہیں۔ایک باغی جنگجو لاشوں کے نزدیک فتح کا نشان بنائے کھڑا ہے اور دوسرا اللہ اکبر کا نعرہ بلند کررہا ہے۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں شامی فوج، حکومت نواز ملیشیا اور باغیوں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا ہے لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ باغی جنگجووں نے سرکاری فوج کے مقابلے میں کم تر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ حلب ہی میں اتوار کی رات ہوئے کاربم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد تیس ہو گئی ہے۔شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا کی اطلاع کے مطابق دو اسپتالوں کے نزدیک کار بم دھماکے میں چونسٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔دھماکے کے لیے ایک ہزار کلوگرام سے زیادہ بارود استعمال کیا گیا تھااور اسے ایک چھوٹے ٹرک میں نصب کیا گیا تھا۔دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے زمین پر چھے میٹر گہرا گڑھا پڑگیا۔سانا نے دہشت گردوں پر اس تباہ کن بم حملے کا الزام عاید کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اس میں تمام مرنے والے عام شہری تھے لیکن باغی گروپوں میں سے کسی نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔شامی آبزرویٹری نے سانا کے دعوے کی تردید کی ہے اور اسپتال ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ مرنے والوں میں فوجی بھی شامل ہیں۔درایں اثنا فرانس نے باغیوں کے زیر قبضہ شام کے پانچ شہروں میں براہ راست امدادی سامان اور رقوم پہنچانا شروع کردی ہیں۔





Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے