امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کا توہین آمیز فلم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس فلم پر تشدد رد عمل کا جواز بنتا ہے

واشنگٹن(ثناء نیوز ) امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کا توہین آمیز فلم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس فلم پر تشدد رد عمل کا جواز بنتا ہے۔ اپنے ملک میں آزادی اظہار رائے کی روایت کے باعث اس فلم پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ تقریر کے جواب میں تشدد قابل قبول نہیں،ہمیں تشدد پر حد باندھنا ہو گی۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں انٹر نیٹ پر پھیلنے والی ویڈیو کے بارے میں بات کرنا چاہوں گی جس کے باعث دنیا کے کئی ملکوں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں پر واضح ہونا چاہیے کہ حکومت امریکہ کا اس وڈیو سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم اس میں دیئے گئے پیغام اور اس کے مواد کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔ امریکہ کی مذہبی رواداری سے وابستگی ہماری قوم کے آغاز کے زمانہ سے ہے۔ ہمارے ملک میں تمام مذاہب کے پیروکار بستے ہیں بشمول لاکھوں مسلمانوں کے اور ہم اہل مذہب کی انتہائی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بالخصوص میرے لیے یہ وڈیو نفرت انگیز اور قابل مذمت ہے یہ انتہائی سنکی پن سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کا مقصد اعلی و ارفع مذہب کی تحقیر کرنا اور اشتعال پر اکسانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیکن جیسا کہ میں گزشتہ روز کہا کہ اس فلم پر تشدد آمیز رد عمل کا کوئی جواز نہیں ۔ امریکہ میں اور دنیا بھر میں بہت سے مسلمانوں نے اس پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس قسم کے تشددکی کسی بھی مذہب میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب کے احترام کا طریقہ ہے ۔ اسلام دیگر مذاہب کی مانند انسانوں کی بنیادی عظمت کا قائل ہے اور یہ اس بنیادی عظمت کی خلاف ورزی ہے کہ معصوم لوگوں پر حملے کیے جائیں جب تک ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا کے نام پر معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہیں اس دنیا میں کبھی حقیقی اور پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ اور یہ تو خاص طور پر غلط ہے کہ تشدد کا رخ سفارتی مشنز کی جانب ہو یہ وہ مقامات ہیں جن کا بنیادی مقصد ہی پر امن ہے کہ ملکوں اور ثقافتوں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم پیدا کی جائے۔ ایک سفارت خانہ پر حملہ در اصل اس سوچ پر حملہ ہے کہ ہم بہتر مستقبل کے لیے مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ دنیا میں بعض لوگوں کے یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ امریکہ کیوں اس وڈیو پر مکمل طور پر پابندی نہیں لگا سکتا میں یہ کہنا چاہوں گی کہ آج کی دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا ناممکن ہے لیکن ایسا اگر کرنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ہمارے ملک میں آزادی اظہار رائے کی ایک دیرینہ روایت ہے جس کو قانونی تحفظ حاصل ہے ہماری حکومت لوگوں کو انفرادی طور پر اپنی آراء کے اظہار کرنے سے نہیں روکتی اور نہ روک سکتی ہے چاہے وہ کتنی یہ قابل نفرت ہی کیوں نہ ہوں میں جانتی ہوں کہ دنیا بھر میں تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کی حدود وقیود کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی دورائے نہیں کہ تقریر کے جواب میں تشدد قابل قبول نہیں ہم سب چاہے ہم سرکاری حکام ہوں،سول سوسائٹی کے رہنما ہوں یا پھر مذہبی قائدین ہوں،تشددپر حد باندھنا ہو گی اور ہر ذمہ دار رہنما کو اب تشدد کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جیسا کہ وہ مذہبی رواداری کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ کاش یہ آخری مرتبہ ہو کہ اس قسم کی صورت حاصل سے دو چار ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے جہاں ہم رہتے ہیں یہ وہ دنیا نہیں۔یہاں ہمیشہ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ رہے گا جو اس قسم کے فضولیات کا پرچار کرتا رہے گا اس لیے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی مل جل کر کام کریں تا کہ تشدد کے خلاف اور مذہبی رواداری کی حمایت میں کھڑے ہوں۔




Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے