خصوصی پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے حکومت پاکستان کو پاک بھارت مذاکرات پر کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینے اور ان کے تحفظات دور کرنے کی سفارش کر دی

اسلام آباد(ثناء نیوز )خصوصی پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے حکومت پاکستان کو پاک بھارت مذاکرات پر کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینے اور ان کے تحفظات دور کرنے کی سفارش کر دی ۔ کمیٹی نے کشمیری مہاجرین کو مستقل شناختی کارڈ جاری کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ کمیٹی نے مذاکرات میں کشمیریوں کو فریق کی حیثیت سے تسلیم کیے جانے کو اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔کمیٹی نے حکومت کو کشمیری مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں 100فیصد اضافے اور کمیٹی کی سطح پر تمام مہاجرین کو چار چار ہزار کے امدادی چیک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہاجرین کے مسائل پر وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ کشمیر کمیٹی کا اجلاس منگل کو کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ کشمیری مہاجرین کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبد المجید اجلاس میں شرکت نہ کر سکے۔ آزاد کشمیر کے وزیر آباد کاری عبد الماجد خان، سیکرٹری وزارت امور کشمیر کامران قریشی نے کمیٹی کو کشمیری مہاجرین کے کیمپوں کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزارت خارجہ کے حکام نے حالیہ پاک بھارت مذاکرات پر بریفنگ دی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کمیٹی نے مذاکرات میں کشمیریوں کو فریق کو حیثیت سے تسلیم کیے جانے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔حکام نے بتایا کہ حالیہ مذاکرات میں بھی مسئلہ کشمیر اہم ایجنڈا آئٹم تھا۔ اس پر بات چیت ہوئی ہے۔کمیٹی نے کہا کہ دونوں ملکوں کو مذاکرات جاری رکھنے چاہیں۔کمیٹی نے کیمپوں میں کشمیری مہاجرین کی کسمپرسی اور مشکلات کا جائزہ لیا اور اس حوالے سے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کی توجہ صورتحال کی جانب مبذول کرائی گئی ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ مہاجرین کی بحالی، ان کی صحت، تعلیم ، رہائش کے حوالے سے موثر اقدامات کیے جائیں۔کمیٹی نے بحالی کے حوالے سے اطمینان بخش اقدامات نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس معاملے پر وزیر اعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے حکومتکو کشمیری مہاجرین کا گزارا الاؤنس 1500 سے بڑھا کر تین ہزار روپے کرنے کی سفارش کی ہے آئندہ ماہ کشمیر کمیٹی کی سطح پر بھی مہاجرین میں چار چار ہزار کے امدادی چیک تقسیم کیے جائیں گے۔حکومت کو کشمیری مہاجرین کو خصوصی شناختی کارڈ جاری کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ کیمپوں میں دستکاری و دیگر ہنر سکھانے کے مراکز کے قیام کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کی کل تعداد 37928 ہے حکومت نے یہ بھی آگاہ کیا کہ 30 ٹھوٹہ مظفر آباد کے مقام پر مہاجرین کے لیے نئی بستی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاک بھارت حالیہ مذاکرات پر مقبوضہ کشمیر کے قائدین کے تحفظات پر سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان قائدین کو اعتماد میں لیں حکومت پاکستان کو کشمیری قیادت کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔ ایک سووال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے خود اقوام متحدہ کے مشن کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ کسی اور سے کیا شکایات کریں ہم نے خود ایسے حالات پید اکیے ہیں ایک سوال کے جواب میں چیئرمین کشمیر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کشمیر کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کی وہی صورتحال ہے جو باقی جگہوں پر ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ کشمیری مہاجرین کے تمام کیمپوں کا دورہ کر چکے ہیں۔ پہلے چیئرمین ہیں جنہوں نے تمام مہاجر کیمپوں کے دورہ کیے اور مہاجرین سے ملاقاتیں بھی کیںکشمیر کمیٹی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں تو مشن بھیجا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ایک لاکھ کے قریب کشمیری ہلاک کرائے اور وہاں ۱۰ ہزار کے قریب لاپتہ ہیں۔ چار ہزار گمنام قبریںبھی ملیں ہیں۔ جموں کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے مگر وہاں مشن نہیں بھیجا ہے وہاں اقوام متحدہ فوری ایکشن کیوں نہیں لیتا۔




Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے