پارلیمانی قومی سلامتی کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہشمالی وزیرستان ایجنسی میں کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ عسکری وسیاسی قیادت نے مل کرکرنا ہے۔ اقوام متحدہ امریکہ کا غلام ادارہ ہے

اسلام آباد (ثناء نیوز ) پارلیمانی قومی سلامتی کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہشمالی وزیرستان ایجنسی میں کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ عسکری وسیاسی قیادت نے مل کرکرنا ہے۔ اقوام متحدہ امریکہ کا غلام ادارہ ہے ۔روس کے بکھرنے کے بعد اس کی آزادی وخود مختاری برقرار نہیں رہی ۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے جائزہ مشن کو ڈرون حملے رکوانے اور امریکہ کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے ہی نمائندے کے بیان کی لاج رکھنی چاہیے ۔ امریکہ و اتحادی افواج کے ساتھ تعاون بارے نئی شرائط کار سے متعلق کابینہ ڈویژن نے قواعد وضوابط میں ترامیم تیار کرلی ہیں جلد کابینہ ان کی منظوری دے گی ۔ انقلاب کے ذریعے ہی قائم ہونے والی حکومت فوجی آمر کا ٹرائل کر سکتی ہے انتخابی راستے سے آنے والی حکومتیں آمروں کا احتساب نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پورے ادارے کے خلاف اقدام تصور کیا جائے گا۔ فوج کے سبکدوش افسران کا سول اداروں کو احتساب کرنا چاہیے اس حوالے سے کوئی مقدس گائے نہیں ہے ۔بلا امتیاز اور بے لاگ احتساب سے ہی ملکی استحکام کا سبب بن سکتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو اسلام آباد میں یوتھ پارلیمنٹ میں سول ملٹری تعلقات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان فلاحی ریاست کے تصور کے تحت قائم ہوا تھا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا واضح روڈ میپ دیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ فلاحی مملکت نہ بن سکی اور شروع ہی سے اسے گریژن اور سیکیورٹی کی ریاست بنا دیا گیا قومی سلامتی کی ریاست بنانے کی وجہ سے فلاحی اقدامات سے توجہ تبدیل ہو گئی ۔ پالیسی سازی کا محور پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں نہیں رہیں۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل نئے طبقہ نے جنم لیا جس کا پالیسی ساز ، داخلی ، معاشی اور خارجہ پالیسیوں پر تسلط قائم ہو گیا ۔ جاگیردار بھی اس طبقے سے مل گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی کو مضبوط کیا ۔ اسی طبقے نے ملک وقوم کے اصل ایشوز سے توجہ ہٹا کر اسے غیر اہم مسائل میں الجھائے رکھا۔ اور یہی روش بن گئی کہ جب بھی سٹیٹس کو کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں عبرت ناک سزائیں دی گئیں ۔سول ملٹری بیوروکریسی کا ایک عرصے تک سیاسی قوتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ پالیسی سازی پر حاوی تھی موجودہ پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ اس نے قومی سلامتی ، خارجہ پالیسی کے دائرہ کار کا جائزہ لیا ۔ سیاست دانوں نے فعالیت کا مظاہرہ کیا اور اس تاثر کی نفی کی کہ سیاستدان اہم پالیسیاں نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اسی سول ملٹری بیورو کریسی کا قومی سلامتی کا ریاست بنانے میں مذہبی طبقات نے بھی ساتھ دیا تھا۔ عدلیہ بھی غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دیتی رہی ۔ موجودہ عدلیہ کو یہ اعزا حاصل ہوا ہے کہ اس نے فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو مسترد کیا ۔ آئین کی پامالی کو بغاوت قرار دیا ۔اور18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے بھی اپنے وقار کو بلند کیا ۔ تمام آمرانہ ترامیم سے پارلیمنٹ سے دستبرار ہو چکی ہے مزید آگے بڑھنا ہے ۔ ریاست کے بنیادی اداروں میں ملٹری بیورو کریسی شامل نہیں ہے بلکہ بنیادی ڈھانچہ پارلیمنٹ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا پر قائم ہے ۔ دیگر اداروں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔ جمہوریت کے استحکام کی طرف بڑھنا ہو گا۔ وفاق اور جمہوریت کے بغیر ریاست کی سالمیت کی بقا ممکن نہیں ہے ۔ وفاق پاکستان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ وفاق پاکستان ہی استحکام کی بنیاد ہے ۔ اگر کسی کے خطرناک عزائم ہیں کہ وہ جمہوری نظام کے ساتھ کھیل سکتا ہے تو اس کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ وہ درحقیقت وفاق کے ساتھ کھیل رہاہے اور عوام اب کسی کو وفاق کے ساتھ اس قسم کا کھیل نہیں کھیلنے دے گی ۔ وفاق اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں ۔ہر اس فوجی جنرل اور فوجی مہم جو کے مخالف ہیں جو رات کی تاریکی میں اٹھ کر نظام پر شب خون مارتا ہے ، آئین کو پامال کرتا ہے ۔ بحیثیت قومی ادارے فوج کا احترام کرتے ہیں، فوج کے خلاف نہیں ہیں ۔ آئین میں فوج کے کردار کو متعین کردیا گیا ہے ۔ سیکیورٹی اور خطے کی صورت حال کے حوالے سے فوج کا اہم کردار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو داخلی حوالے سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ان عناصر کا تعین کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے گزشتہ روز عوام کے احتجاج کو پرتشدد بنایا ۔ ان عناصر کا ایجنڈا شاید کچھ اور ہے ۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ فوج کے ساتھ تعلقات کار قائم ہونے چاہئیں ۔ تاہم اس میں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ سویلین اور پارلیمنٹ کی ہی اس میں برتری کو تسلیم کیا جائے ۔ یہ انوکھی بات نہیں ہے جہاں بھی جمہوری نظام ہے وہاں یہی سلسلہ جاری ہے ۔ کیونکہ ماضی میں ہمارے ملک میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا اس لیے کچھ قوتوں کو یہ بات انوکھی نظر آرہی ہے ۔ قومی سلامتی پر فوج سے مشاورت ہونی چاہیے ۔ تاہم پالیسی کے بارے میں رہنما اصول ، اس کے دائرہ کار کا حتمی اختیار سول حکومت اور پارلیمنٹ کو ہی ہونا چاہیے ۔ یہی فورم پاکستان کا نمائندہ فورم ہے ۔ قومی سلامتی کے معاملے پر ہر قدم فوج سے ضرور مشاورت ہونی چاہیے ۔ تمام شراکت داروں کو ذہنی طور پر پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل نہیں بننی چاہیے کیونکہ یہ فوجی آمر کے ذہن کی اختراع ہونے کی وجہ سے اس پر شدید تنقید ہوئی اور سیاسی قوتوں نے اس کی حمایت سے گریز کیا ۔ اس کی بجائے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو مضبوط ہونا چاہیے ۔ پارلیمنٹ نے اس جانب درست سمت مین سفر کا آغاز کردیا ہے ملٹری بیوروکریسی نے قدم بڑھایا ہے ۔ اس کی جو ووجوہات ہوں ابتداء اچھی ہے ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہے ۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی فضا کا تاثر بھی درست نہیں ہے ۔ کیا یہ وہی پارلیمنٹ نہیں ہے کہ جس نے اٹھارہویں ترمیم پر عدالت عظمیٰ کی آبزرویشن کو مد نظر رکھ کر 19 ویں ترمیم منظور کی ، این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم کو گھر جانا پڑا۔ قوم کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیںہے ۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان تصادم نہیں ہے ۔ تبدیلی کے عمل سے ضرور گزر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازی میں سویلین کی بالاستی ، فعال میڈیا اور متحرک یوتھ کی وجہ سے رول بیک نہیں کیا جا سکتا ۔ پہلی بار تاریخ مین ایسا ہوا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات پر ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ملٹری آپریشنز پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے اور گھنٹوں تک سوالات کا سیشن ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ موجودہ سیٹ اپ انقلاب نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی کے ذریعے قائم ہوا ہے اس لیے آئین توڑنے والے فوجی آمر کا ٹرائل ممکن نہیں ہے ۔ اس حوالے سے ہر مکتبہ فکر اور ہر سیاسی قوت کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ اور اگر فوج کے سابق سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل سکس کے تحت اقدام اٹھایا جاتا تو اسے کسی فرد واحد کے خلاف اقدام تصور نہ کیا جاتا بلکہ ایک ادارے کے خلاف اقدام تصور کیا جاتا اس لیے یہ اقدام نہیں اٹھایا گیا اور مفاہمتی پالیسی کو اپنایا گیا ۔ عوامی قوت ہی واحد راستہ ہے جو غیر آئینی قوتوں کا راستہ روک سکتی ہے ۔ اختیار ات کے حوالے سے لائن آف کمانڈ کا تعین ہو گیا ہے ۔ سیاستدان پختگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کو ہر مارشل لاء کے بعد حکومت ملی مگر کسی آمر کا ٹرائل نہیں ہو سکا ایسا اقدام کیا جاتاتو وقتی طورپر اس کا فائدہ ہو سکتا ہے مگر ملکی مفاد اور استحکام کے لیے اس کے طویل مثبت اثرات مرتب نہ ہوتے۔ پارلیمنٹ نے امریکہ، نیٹو اور ایساف کے ساتھ نئی شرائط کار کا تعین کردیا ہے ۔ ا س بارے میں تمام شراکت داروں سے مشاورت کی گئی تھی ۔ میری اطلاعات کے مطابق ان شرائط کار پر عملدرآمد کے لیے کابینہ ڈویژن نے قواعد وضوابط میں ترامیم تجویز کرلی ہیں ۔ جو جلد ہی کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی ۔ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ہمارے ملک میں اختیارات کی جنگ رہی ہے اور فعال عدلیہ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی فعالیت اس لیے بھی منفرد محسوس ہو رہی ہے تمام سٹرکچر زنگ آلود ہو چکا ہے ۔ فوجی آمروں نے اپنے اختیارات کو بڑھانے کے لیے اختیارات سے تجاوز کیا ۔ پارلیمنٹ کی تاریخ ساز ترامیم کی وجہ سے اداروں پر لگا یہ زنگ آہستہ آہستہ اتر رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر ادارہ اپنی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس لیے یہ فعالیت منفرد نظر آرہی ہے ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ اور ایبٹ آباد کے سانحات خارجہ پالیسی کی ناکامی کان تیجہ ہیں۔ ڈرون حملے رکوانے کے لیے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے یہ حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہے ۔ اس پر پارلیمنٹ نے واضح طور پر قرار دادیں منظور کررکھی ہیں مگر امریکہ کسی ایک کی بھی نہین سن رہا ہے اس معاملے پر امریکی سفیر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ خود اقوام متحدہ کا ایک نمائندہ ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے ۔ اقوام متحدہ لاپتہ افراد کے معاملے پر تو پاکستان آسکتا ہے مگر اپنے ہی نمائندے کی جانب سے ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دینے پر امریکہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا ۔ واضح ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ تضادات کا شکار ہے اور دوہرامعیار اختیار کررکھا ہے ۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد اقوام متحدہ امریکہ کا غلام ادارہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اور اس کی کوئی آزاد و خود مختار اور عالمی حیثیت برقرار نہیں رہی ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ کار کو فاٹا تک وسیع ہونا چاہیے ہم اس بات کی حمایت کرتے ہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ایف سی آر کو مکمل طور ختم کیا جائے ۔ وقت آنے پر ایسا ضرور ہو گا ۔ بتدریج اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ قبائلی عوام پاکستان کی بقا کی جنگ لڑرہے ہین پوری قوم ان کے ساتھ ہیں ۔ شمالی وزیرستان کے معاملے پر امریکہ کو اپنے روایتی بیانات کو ترک کرنا چاہیے ۔ یہ امریکہ کا کوئی اختیار اور حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان پر آپریشن کے بارے میں دباؤ ڈالے ۔ یہ کارروائی ہوگی یا نہیں اس کا فیصلہ پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے مل کرکرنا ہے ۔ فاٹا کو جلد از جلد قومی دائرے میں لاناہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر ، دفتر خارجہ ، وزارت دفاع نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف پیش کیا کہ مہ ڈرون حملوں کے بارے میں کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ پرویز مشرف نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس کی حدود کو غیروں کے حوالے کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کو نیٹو سپلائی سے منسلک کرنے کاآپشن ہو سکتا ہے اس کا حتمی اختیار حکومت پاکستان کے پاس ہے اور وہی اس بارے میں پالیسی بنا سکتی ہے ۔ یوتھ پارلیمنٹ کا یہ اہم سیشن پلڈاٹ کے ذریعے ہو رہا ہے ۔ ۔


Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے