سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس کی سماعت کے دوران ایف سی کمانڈنٹ ڈیرہ بگٹی کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ شخص کہو بگٹی سمیت آج عدالت میں پیش ہوں


کوئٹہ (ثناء نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کیس کی سماعت کے دوران ایف سی کمانڈنٹ ڈیرہ بگٹی کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ شخص کہو بگٹی سمیت آج عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے بلوچستان حکومت کو صوبے میں امن و امان کے حوالے سے رپورٹ پیش کر نے کے لیے بھی آج تک مہلت دے دی ہے۔ عدالت نے قرار دیاہے کہ اختر مینگل ، طلال بگٹی عدالت میں آ رہے ہیں انہیں اعتماد ہے ۔ حکام ان کے اس اعتماد سے فائدہ اٹھائیں۔عدالت نے اپنے حکم میںقرار دیاہے کہ کابلی گاڑیوں کی آمدورفت سے امن امان خراب ہوا کوئٹہ اور اردگرد کے بازار سمگلنگ کی اشیاء سے بھرے پڑے ہیں کسٹم حکام ایکشن لیں اور کسٹم حکام دو ہفتوں میں نان کسٹم گاڑیوں سے متعلق جامع رپورٹ پیش کریں جبکہ محکمہ میں ایماندار ،فرض شناس افسران تعینات کیے جائیںجو ایمانداری اور محنت سے قانون کی عملداری یقینی بنائیں،عدالت نے قرار دیا ہے کہ بلوچستان پاکستان کی روح ہے اور ملک بچانے کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے، سیکورٹی اداروں کو اغواء اور ٹارگٹ کلنگ روکنے کے لیے نتائج دینا ہوں گے۔صوبے میں تعینات نالائق افسران کو عہدوں سے ہٹایا جائے۔سیکرٹری دفاع کو اسلحہ وگاڑیوں کی تمام راہداریاں منسوخ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمگلنگ یہاں ہوتی ہے،سر عام اسلحہ یہاں بکتا ہے اگر کچھ نہیں کر سکتے تو محکمہ کسٹم بند کر دیں۔ چار دن کی سماعت کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔انہوں نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیاکہ کیا بلوچستان میں اچھے افسران کی کمی ہے اور نالائقوں کو کیوں ہٹایا نہیں جارہا۔جمعرات کوچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔چیف سیکرٹری بلوچستان،سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین، صوبائی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔جبکہ وفاقی سیکریٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر عدالت نے اظہار برہمی کیاآئی جی ایف سی سے مکالمہ کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہمیں دو لفظ لکھ کر دینے ہیں کامیاب ہوئے یا ناکام۔لیکن آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ وقت ضائع نہیں کررہا بلکہ صوبہ میں امن کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔عدالت میں چمن سے پکڑے جانے والے کاہوبگٹی کے بھائی بنسرا بگٹی بھی پیش ہوئے اور بتایا کہ دونوں کو ایک ساتھ حراست میں لیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں رہا کردیا گیا جب کہ بھائی کی حراست سے انکار کیا جارہا ہے۔دوران سماعت ہزارہ قبیلے کی خواتین بھی عدالت میں پیش ہوئیں اور بتایا کہ انیس سو ننانوے سے سات سو پچاسی افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔ ہزارہ برادری کی خواتین نے12-1999تک ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے اعدادو شمار بھی پیش کیے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے اکابرین کو دھمکی آمیز فون آتے ہیں۔ خواتین نے الزام لگایا کہ قتل کے ملزموں کو جیل میں سہولتیں دی جاتی ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہزارہ قبائل کے لوگوں کوسیکیورٹی فراہم کرنے کیلئے کیااقدامات کیے گئے ہیں؟ جسٹس خواجہ نے کہا کہ حکومت اپنے اقدامات سے آگاہ کرے، کس نے کیاکیا؟اس موقع پر چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم نے آئی ایس آئی کے جنرل کو نہیں بلایا کہ الزام آپ پر لگ رہے ہیں،آپ تحریری طور پر دیں کہ آپ ناکام ہوچکے، اس پر آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں،دن رات کام کیا، وقت ضائع نہیں کیا۔ایک موقع پر جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ 6 ماہ میں 46اہل تشیع افراد کو ٹارگٹ کیاگیا، یہ ایک صوبے کا ریکارڈ ہے، دوسرے صوبوں میں علیحدہ معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دو لفظ دینے ہیں کامیاب یا فیل ہوگئے۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کے مسئلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے تو آئی ایس آئی کے جنرل کو بلواسکتی ہے۔آپ کو لاپتہ افراد کے بارے میں بتانے کے لیے طلب کیا گیا ہیدوران سماعت ایف سی کے وکیل کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت ہورہی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیکورٹی کے اداروں نے غیر ملکی ایجنٹ پکڑے ہیں۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایجنسیاں سو رہی ہیں ۔سماعت کی ابتدا میں چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اگر مغوی نوجوان کو بازیاب نہیں کرا سکتے تو ڈیوٹی پر مامو ر کیوں ہیں قانون نافذ کرنے والے ادار کیوں کچھ نہیں کر رہے،کیا افسران کی کمی ہے جب آپ(چیف سیکرٹری) خود دلچسپی نہیں لیتے تو کیا پیش رفت ہوگی چا ردن سے عدالت لگا کر بیٹھے ہیں نتائج صفر ہیں۔ نالائق افسران کو عہدوں سے ہٹائیں۔اور پشین سے پندرہ روز قبل اغواء ہونے والا بچہ بازیاب کیوں نہیں ہو رہا ۔جس پر چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ پشین سے اغواء ہونے والے بچے کو جلد بازیاب کرا لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بچے کی بازیابی کے لیے خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطے میں ہیں امید ہے کہ شام تک بچے کو بازیاب کرالیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسران ائیر کنڈیشنڈ میں بیٹھے مراعات لے رہے ہیں چیف سیکرٹری کے پاس ہر ضلع کے لیے پالیسی ہونی چاہیے۔اغواء اور ٹارگٹ کلنگ روکنے کے لیے سیکورٹی کے اداروںکو نتائج دینا ہوں گے پولیس ہو یا لیویز اس مسئلہ پر خاموش ہیں۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ کیا آپ لوگ اتنی کمزوری محسوس کر رہے ہیں کیا جرائم پیشہ لوگ اتنے بااثر ہیں چیف جسٹس کا صوبائی سیکرٹری داخلہ سے کہنا تھا کہ گلستان میں لوگ اتنے نرم مزاج تھے اب ہتھیار لے کر چلتے ہیں لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیا ر کس نے دیامغوی بچے کو کچھ ہو گیا تو آرٹیکل 9کے تحت ذمہ دارکون ذمہ دار ہو گا،لگتا ہے انتظامیہ بالکل ناکام ہو گئی ہے۔آپ اتنے بے بس ہیں کہ مغوی نوجوان کے والد کے کہنے پر چل رہے ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کوئی کام نہیں ہو رہا تو ہم لکھ کر دے دیں گے اور اگر ابتدائی طور پر صحیح کا م کیا جاتا تو آج اتنی بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑتی۔کراچی کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے۔ اس موقع پر ایف سی کے وکیل راجہ ارشادنے عدالت کو بتایا کہ ایک بھی لاپتہ شخص ایف سی کے پاس نہیں ہے ۔انہوں کہا کہ ایف سی کو جرائم ی ماں کہ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔راجہ ارشاد کا عدالت سے کہنا تھا کہ آپ آئین سے باہر نہ جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں آئین نہ پڑھائیں آپ کا جتنا کام ہے اتنا ہی کریں ۔راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ اگر ایف سی برائی کی جڑ ہے تو عدالت ان کے پولیس کے اختیارات ختم کردے۔چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو ہدایت کی کہ آئین کے آرٹیکل پانچ کو آرٹیکل آٹھ کے ساتھ ملا کر پڑھیں کیونکہ آپ اکثر غیر ملکی ایجنسیوں کی بات کرتے ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم تمام مقدما ت میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن بلوچستان کی صورتحال انتہائی حساس ہے۔جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کی روح ہے اسے سنبھالنے کی کوشش کریں ۔افسران کو چادر اوڑھ کر سونے کی بجائے اپنی ذمہ داریا ں نبھانی چاہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روزعدالت کے روبرو ان ہزارہ برادری کی بچیوں کا رونا دیکھ کر وہ ساری رات سو نہیں سکے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک فقہ کے دو سو طالب علم تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایجنسیوں نے کسی ایجنٹ کو پکڑا ہے تو اس کے خلاف ایکشن لیں ہمیں اپنا ملک بچانا ہے چاہے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاقی سیکرٹری داخلہ کہا ں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بیمار ہیںان کی جگہ جوائینٹ سیکرٹری آئے ہیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عدالت کا احترام نہیں ہے کہ وہ عدالت کے حکم پر پیش نہیں ہوئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں حالات بہت خراب ہیں لیکن کوئی بھی شخص ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہم چاہتے ہیں کہ خدا کے لیے صوبے میں امن قائم ہو جائے اگر کوئی حکم پاس کردیا تو سب کے لیے مسئلہ ہو جائے گا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت وزارتی کمیٹیوں کے بارے میں استفسار نہیں کر رہی لاپتہ افراد کے بارے میں بتایا جائے۔ دوران سماعت عدالت نے کسٹم حکام سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے بعد کتنی غیر قانونی گاڑیاں پکڑی گئی ہیں تاہم وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ان کا کہنا تھا کہ اب تک صرف 120گاڑیاں پکڑی ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اب ہم آپ کے ساتھ گاڑیاں پکڑنے چلیں۔حالت یہ ہے کہ 13جولائی کو پکڑی گئی گاڑی کا مقدمہ پانچ ستمبر کو درج کیا گیا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کسٹم کا محکمہ کیا کر رہا ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرا تو دل کرتا ہے کہ کسٹم کلکٹر کو معطل کردوں شرم کی بات ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود صرف 210 گاڑیاں پکڑی گئی ہیں ، سمگلنگ یہاں ہوتی ہے ۔اسلحہ یہاںبکتا ہے اگر کسٹم حکام کچھ نہیں کرسکتے تو محکمہ بند کر دیں۔اس موقع پر کسٹم حکام کا کہنا تھا کہ وہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔عدالت نے دوران سماعت سیکرٹری دفاع کو ہدایت کی کہ وہ تمام غیر قانونی راہداریاں منسوخ کریں اور اسلحہ و گاڑیوں کی راہداریوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔عدالت کا کہنا تھا کہ غیر قانونی گاڑیوں کی رجسٹریشن کرنا ایک اور جرم ہے عدالت نے آئین پر عمل کرنا ہے حکومت اپنی ذمہ داریا ں پوری نہیں کر رہی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کریں جس میں یہ بھی بتایا جائے کہ ٹارگٹ کلنگ روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔دوران سماعت ایجنسیوں کے وکیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صورتحال خراب ہے اور غیر ملکی قوتیں ان حالات کے پیچھے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج تک ایجنسیوں نے کوئی غیرملکی ایجنٹ پکڑ کر دکھایا ہے۔عدالت نے اپنے حکم میںقرار دیا کہ کابلی گاڑیوں کی آمدورفت سے امن امان خراب ہوا کوئٹہ اور اردگرد کے بازار سمگلنگ کی اشیاء سے بھرے پڑے ہیں کسٹم حکام ایکشن لیں اور کسٹم حکام دو ہفتوں میں نان کسٹم گاڑیوں سے متعلق جامع رپورٹ پیش کریں اور ادارے میں ایماندار ،فرض شناس افسران تعینات کرے۔جو ایمانداری اور محنت سے قانون کی عملداری یقینی بنائیں۔عدالتی حکم پر سیکرٹری دفاع نے رپورٹ پیش کی جس کو ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے پڑھا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں فورسز سے ہمدردی ہے ۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ بارڈر پر فوجی مر رہے ہیں کوئی جنرل سبکدوش ہوا، کتنے لوگ مارے گئے ،کتی مسخ شدہ لاشیں ملیں اور کتنے لوگ بازیاب ہوئے،۔دوران سماعت ایف سی کی جانب سے کہو بگٹی سے متعلق بیان عدالت میں جمع کرایا گیا۔ تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے لاپتہ افراد سے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے بلوچستان حکومت سے امن و امان بارے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارکردگی کے بارے میں رپورٹ پانچ الفاظ میں ہونی چاہیے کہانیاں نہ بنائی جائیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کتنے ڈپٹی کمشنرز کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ صرف زبانی جمع خرج نہیں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بتائیں کہ کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ کتنے لاپتہ افراد سامنے آئے۔پولیس اور انتظامیہ کے کتنے لوگ معطل ہوئے۔ اگر کوئی حکومت کے خلاف کام کر رہا ہے تو اس کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم روز لوگوں کے سامنے خود کو شرمندہ نہیں کر سکتے۔ اگر لاپتہ افراد کسی جرم میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے ہم ہر میٹنگ پلان عملدر آمد اور اس سے نکلنے والے نتیجہ سے متعلق بات کریں گے۔اختر مینگل ،طلال بگٹی عدالت میں آ رہے ہیں انہیں عدالت پر اعتماد ہے اور حکومت ان افراد کا اعتماد توڑ رہی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں 22 ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ اسکارٹ لینڈ یارڈ یا اقوام متحدہ نے آ کر لوگوں کو تلاش کرنا ہے۔بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت آج (جمعہ )تک ملتوی کردی

تبصرے