سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں امن امان کی مخدوش صورتحال کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لیے وفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع و سیکرٹری قانون کو طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی مزید سماعت آج( جمعرات) تک ملتوی کردی


کوئٹہ(ثناء نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں امن امان کی مخدوش صورتحال کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لیے وفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع و سیکرٹری قانون کو طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی مزید سماعت آج( جمعرات) تک ملتوی کردی عدالت نے بلوچستان حکومت کو حکم دیا ہے لاپتہ افراد کے حوالے سے حتمی رپورٹ آج عدالت میں پیش کی جائے۔ ۔ سماعت کے دوران آئی جی ایف سی نے عدالت میں بیان دیا کہ کوئٹہ میں غیر قانونی گاڑیوں ، غیر قانونی اسلحہ اور افغان باشندوں کے خلاف کارروائی کریں تو امن و امان بہتر ہو گا انہیں پالیسی دیں وہ بہتر کام کر سکتے ہیں وزیر اعظم نے انہیں انٹی سمگلنگ اختیارات استعمال کرنے سے منع کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مطلب پھر تو سب ملے ہوئے ہیں آپ کہیں کہ آپ قانون کے مطابق کام کریں گے آئی جی ایف سی نے کہا کہ وہ امن و امان یقینی بنائیں گے پوسٹ چھوڑنے والا گھر جائے گا آپ گائیڈ لائن دیں وہ عمل کریں گے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم کچھ گائیڈ لائن نہیں دیں گے چیف جسٹس نے دوران سماعت ایک موقع پر استفسار کیا کہ بندہ ڈیرہ بگٹی میں ہوتا ہے اور گرفتار چمن سے ہوتا ہے یہ کیا صورت حال ہے عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے لاپتہ افراد سے متعلق بلوچستان حکومت سے آج (جمعرات ) کو حتمی جواب طلب کرلیا وفاقی سیکرٹری داخلہ ، قانون اور دفاع کو بھی طلب کر لیا گیا عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آتش فشاں پر بیٹھے ہیں حکومتی رٹ نظر نہیں آتی ایجنسیاں اسلحہ کی راہداریاں کیوں دے رہی ہیں سب اپنی نوکریاں بچانے کے چکر میں ہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد جہاں بھی ہیں انہیں واپس لایا جائے۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاق سے کہا جائے گا کہ صوبے میںایف سی سمیت تمام ایجنسیاں ناکام ہو چکی ہیں وفاق کوئی اور انتظام کرے۔ریاست کا کسی کو احساس نہیں ہے۔بدھ کوچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان امن و امان کیس کی سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے اور ملک بدنام ہو رہا ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل عرفان قادر اور آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اللہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کو بولنے کی اجازت نہیںدی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈیرہ بگٹی سمیت کئی کیس ہیں جنکاغلط تاثرجارہاہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے، شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ پر یو این نے نوٹس لیا ہے ، کس کو کہیں،سب کو ہم نے دیکھ لیا ہے، کوئی وفاق کیجانب سے پیش نہیں ہوا۔ انہوں نے آئی جی ایف سی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ سے بڑی امید تھی جنرل عبید، 4 دن سے جان بوجھ کرکیس نہیں لے رہے تھے کہ کچھ بہتر ہو،نتیجہ کچھ نہ آیا، آپکی فورس کا نام آنا شروع ہوگیا، ہماری فورس کا نام آئیگا تو میں پہلے اسے دیکھوں گا،ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہورہی ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ اخبارات میں ہے اقوام متحدہ کا وفد ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آرہا ہے، باہرکے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے آئینگے تواقتدار کیلئے کتنے خطرناک ہونگے۔ اس موقع پر آئی جی ایف سی کہنا تھا کہ ہمیں امن و امان کی صورتحال کو وسیع طور پر دیکھنا ہوگا، یہ ملک کے سب اداروں کی مشترکہ ذمے داری ہے، ایف سی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدنام کیا جارہاہے۔ اس موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایف سی کارکردگی متاثر کن نہیں۔دوران سماعت چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی نے رپورٹ میں کہا ہے لاپتا افراد ایف سی کے پاس ہیں، جس پر آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ یہ تو بڑا آسان ہے کہ کوئی کہہ دے بندہ فلاں کے پاس ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایف سی سے کچھ نہیں ہو سکتا تو لکھ کر دے دیں پھر یہ معاملہ وزیر اعلی اور گورنر کو دیں گے۔اگر آپ ناکام ہو چکے ہیں تو ہمیں علم ہے کہ قانون نے کیا کرنا ہے مسلح افواج ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اسلحہ ہے اور راہداریوں پر گاڑیاں چل رہی ہیں، پشین میں کیمپ اسلحے،منشیات سے بھرے ہیں، سارے غلط کام ہوتے ہیں، ڈپٹی کمشنر سے پوچھیں کہ کیا اسے پتانہیں کہ کوئٹہ میں کیا ہورہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ نے کہا کہ حالات بہت برے ہیں، تسلیم کرتا ہوں مگر ایسے برے بھی نہیں کہ کچھ اچھا نہیں ہورہا، آپ حکم دیں، سرزنش کریں، ہم مانیں گے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم سرزنش نہیں کرینگے، آپ بس لاپتاافراد کو جاکر لے آئیں۔اس موقع پر عدالت نے فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) بلوچستان کو حکم دیا ہے کہ صوبائی پولیس سربراہ نے جن افراد کا کہا ہے انہیں حوالے کیا جائے۔ سماعت کے دوران وفاقی سیکرٹری داخلہ اور وفاقی سیکرٹری دفاع کے حاضر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔سماعت کے دوران آئی جی ایف سی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پانچ سال میں دو ہزارافراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور تقریبا اتنے ہی لوگ زخمی ہوئے۔چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے بائیس ادارے اور ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ لوگ ناکام ہوچکے ہیں، اگر آپ سے کچھ نہیں ہوسکتا تو لکھ کر دیں،گورنر اور وزیراعلی کو بلا کر بتائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کا اقوام متحدہ نے بھی نوٹس لیا ہے۔۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکریٹریز کے رویوں سے لگتا ہے انہیں بلوچستان سے دلچسپی نہیں۔ اٹارنی جنرل کی غیر حاضری پر چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ غیرملکی وفود سے ملاقاتوں کے باعث نہیں آسکے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ملکی وفود کو بتادیں کہ ہمارے صوبے میں بدامنی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ اٹارنی جنرل آج 11 بجے تک عدالت پہنچ جائیں گے، چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ آجائیں گے تو کیا کرلیں گے۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو ایک روز قبل یہاں موجود ہونا چاہئیے تھا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک آپ کے سارے ایشوز ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ آپ لاپتہ افراد کے معاملے میں ناکام ہیں۔ آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری عدالت میں ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ غیر حاضر ہیں۔ جسٹس خلجی عارف کو کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز ہمارے لیے قابل عزت ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایف سی افسران کیخلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا وفاقی سیکریٹری داخلہ کو جہاز نہیں ملا اور سیکریٹری دفاع غیر ملکی وفد سے ملاقات کے سلسلے میں مصروف ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے کہا گھریلو مسائل غیر ملکی وفد سے ملاقات سے زیادہ اہم ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی عدالت کی اولین ترجیح ہے،چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا پشین سے اغوا نوجوان کو بازیاب کروایا گیا یا نہیں؟سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ بازیابی کیلئے کوشش جاری ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کب تک یہ برداشت کریں گے اگر ایک کرنل کو ہتھ کڑی لگا دی جائے تو فوج میں کیا پیغام جائے گا۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ شہریوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں اور لا پتہ ہونے کے واقعات میں پولیس اہلکار بھی ملوث ہیں اب وہ مقام آگیا جہاں کچھ کرنا ہے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے روز تماشا نہیں کر سکتے۔ دوران سماعت خفیہ ایجنسیوں کے وکیل کی عدالت سے تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ لوگ اپنے بچوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں عدالت کے باہر لواحقین کا رش ہے ماضی میں افغانستان سے بھی لوگوں کو لایا گیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا اگر افغانستان میں بھی کوئی موجود ہے تو اسے لایا جائے۔یہ لوگ اسمان پر تو نہیں گئے بتایا جائے کہاں ہیں۔سماعت کے موقع پر ہزارہ برادری کی خواتین نے عدالت کے باہر مظاہرہ بھی کیا جبکہ عدالت کے روبرو پیش ہو کر ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کو تحفظؓ حاصل ہو تو ان کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہو

تبصرے