چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آ ئین کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، ریاست کی ذمہ داری ہے

اسلام آباد(ثناء نیوز )چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آ ئین کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی، لوگوں کے حقوق کی پامالی اور انکاری کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرے میں عدم استحکام اور انتشار پھیلتا ہے۔ جہاں طاقت حق بن جائے اس معاشرے کے ڈھانچہ کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس لیئے آئین اور قانون کی بالادستی ہی تمام سماجی برائیوں اور معاشی مسائل کا واحد حل ہے۔ غیر مساویانہ سلوک معاشرے میں امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جو کہ انسان کیلئے جسمانی اور روحانی افزائش کیلئے ضروری ہیں۔ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموار کو نئے عدالتی سال 2012 کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی برائیوں کا مکمل طور پر خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک تمام شرکاء کا اس میں بھرپور تعاون اور حصہ نہ ہو جس کے تحت وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں امن اور قانون کی بالادستی کے قیام کے لئے اداکرتے ہیں۔لوگوں کی بھلائی کا مقصد تب تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ قانون کی بالادستی نہ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو۔ آئینِ پاکستان کے دیباچہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جمہوریت کے اصول، برابری، آزادی اور معاشی انصاف جیسا کہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کو پورے طریقے سے اپنایا جائے گا۔ اسی مقصد کی خاطر سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی ایک اعلیٰ عدلیہ کے طور پر اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بد عنوانی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ جس سے آہنی ہا تھو ں سے نپٹنا ہے۔ عدالتی پالیسی ،جوڈیشل آفسران اورعدالتی اہلکاروں سے سختی کے ساتھ ضابطہ اخلاق کی سخت پیروی کرنے ،بدعنوان اور نااہل عدالتی افسران اور عدالتی اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع کرنے پر زور دیتی ہے۔ آئین کے زیر سایہ اعلیٰ عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں اور انتظامیہ اور مقننہ کے اقدامات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی روشنی پرپرکھیں۔ ججز اپنے حلف کے پابند ہیں کہ وہ انصاف ہر خاص و عام کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر مہیا کریں۔ ججز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آئین پاکستان کی حفاظت اور دفاع کریں۔ اسی طرح آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کی ذمہ داری تمام حکومتی /عوامی نمائیندگان اور منتخب عوامی نمائندگان پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ ریاست کے تمام اداروں اور اعضاء کے لیے لازم ہے کہ وہ عوامی مفاد کی خاطر ایمانداری اور دیانتداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ۔ رسمی طور پر نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب کرنے سے ہم اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا حساب اور اندازہ لگاتے ہیں، گزرے ہوئے سال میں ہماری کارکردگی اور کمزوریاں، وہ شعبہ جات جن کی طرف ہمیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور بہتر کر سکتے ہیں، نئے عدالتی سال میں ہمارے منصوبے، اور آخر میں جو کم اہم نہیں، ہمیں اپنے مصمم ارادے پرازسرِنوجائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ہمیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری کے جذبے اور جوش کی تکمیل کیلئے ، بغیر خوف وخطر، رعایت، بدنیتی یا لگائو، نیک نیتی سے اور آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا ہے۔یہ موقع ہے کہ بینچ او ربار اکھٹے ہو کر بیٹھیںاور عدلیہ کے ادارے کی کارکردگی کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تاکہ عدالتی نظام کو درپیش خطرات اور مشکلات کا سدِباب کیا جاسکے اور ان کے خاتمے اور حل کیلئے حکمت عملی طے کی جائے۔ ہم تیز انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں علم اور اطلاع کا حصول نہایت آسان بن چکا ہے یہ ہر ایک کے علم میں ہے کہ جو کچھ بھی ہماری عدالتوں میں ہوتا ہے اسکے بارے میں ملک کے دوردراز علاقوں کے لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لیئے موجودہ دور میں عدالت کی کارکردگی کے بارے میں کسی کو آگاہ کرنے کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ پہلے ہی ہر ایک کے علم میں ہے اور ساری قوم کے سامنے ہے یہاں تک کہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے عدالتی ریکارڈ خود بولتا ہے۔ انہوںں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی، لوگوں کے حقوق کی پامالی اور انکاری کو جنم دیتی ہے جس سے عدم استحکام اور انتشار پھیلتا ہے۔ جہاں طاقت حق بن جائے اس معاشرے کے ڈھانچہ کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس لیئے جدید اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے کہ آئین اور قانون کی بالادستی ہی تمام سماجی برائیوں اور معاشی مسائل کا واحد حل ہے۔ اسلام ایسے معاشرے کے قیام پر زور دیتا ہے جہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو، تما م افراد خواہ وہ اعلیٰ ہویا ادنیٰ، طاقتورہو یا کمزور، امیرہو یا غریب سب قانون کے سامنے برابر ہیں اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے غیر مساویانہ سلوک معاشرے میں امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جو کہ انسان کیلئے جسمانی اور روحانی افزائش کیلئے ضروری ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا انصاف کی فراہمی کے نظام میں بنیادی کردار ہے مگر تمام حکام اور ادارے بشمول انتظامیہ اور مقننہ کو انصاف کی فراہمی اور عدالتی عمل کی تعمیل کیلئے اس کی ضروری مدد اور تعاون کر نا ہے ۔ طاقت کی تکوین کے اصول جیسا کہ آئین کی شقوں میں درج کیا گیا ہے اس کا مقصدحکومتی اداروں کے مابین ہم آہنگی اور ربط کا ایسا ماحول بنانا ہے کہ شفاف انصاف کی فراہمی کا مقصد پورا ہو سکے۔ عدلیہ کو خاص طور پر عدالتی نظرثانی کا اختیار دیا گیاہے کہ یکطرفہ زیادتیوں اور انحراف پر نظر رکھی جا سکے اور عدالتی نظام کی ترقی کو برقرار رکھا جائے اور عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ میں یہ ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ حالیہ برسوں میں عدلیہ حکومت کے ایک تیسرے ستون کی حیثیت سے آئین کی حاکمیت اور بنیادی حقوق کے محافظ کے طور پر سامنے آئی ہے عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے عدالتی فعالیت سے نہ صرف عدالتی نظام میں مجموعی بہتری آئی ہے بلکہ اس ادارے پر عوام کا اعتماد بڑھا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالت کی طرف سے اس کے تمام فیصلوں میں آئین کے مطابق سب کے ساتھ ا یک جیسا سلوک اور یکساں قانونی حفاظت سے ریاستی اداروں اور عام لوگوں میں فاصلے کم ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے معاشی برائیوں مثلاً کرپشن، اغوائ، زبردستی غائب کرنا، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں کافی کمی آئی ہے۔ بہرحال ان معاشرتی برائیوں کا مکمل طور پر خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک تمام شرکاء کا اس میں بھرپور تعاون اور حصہ نہ ہو جس کے تحت وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں امن اور قانون کی بالادستی کے قیام کے لئے اداکرتے ہیں۔ ان معاشرتی برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے جس سے یہ برائی ختم ہو سکے۔ درحقیقت لوگوں کی بھلائی کا مقصد تب تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ قانون کی بالادستی نہ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو۔ آئینِ پاکستان کے دیباچہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جمہوریت کے اصول، برابری، آزادی اور معاشی انصاف جیسا کہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کو پورے طریقے سے اپنایا جائے گا۔ اسی مقصد کی خاطر سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کی ایک اعلیٰ عدلیہ کے طور پر اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات پر کافی زور دیا جا رہا ہے کہ تمام جھگڑے جلد از جلد نمٹائے جائیں اور ہر کیس کو ایک معقول وقت کے اندر نمٹایا جائے۔ بحر حال اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ججز کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئیے کہ ان کی کارکردگی انصاف کے معیار کے مطابق ہو کیونکہ شفافیت، قانونی طریقہ کار اور اہلیت کوکارکردگی کے نام پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مقدمات کی بڑی تعداد میں دائر کیا جانا عوام اور فریقین مقدمہ کی ملکی نظام عدل اور آزاد عدلیہ پر اعتماد کی غمازی کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام عہدے داران کے لیے یہ معاملہ باعث تشویش ہے کہ بہر کیف ہر صورت مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جانا ضروری ہے۔ مقدمات کے نمٹائے جانے میں تاخیر کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ ضلعی سطح پر عدالتی افسران کی کمی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت صوبہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور دارلخلافہ اسلام آبادمیںبالترتیب 103, 102, 182, 87, 177اور 79عدالتی آفسران کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ مقدمہ بازی میں اضافہ بھی مقدمات کے نمٹائے جانے میں تاخیر کی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ آباد ی میں واضع اضافہ بلآخر دیوانی اور فوجداری نوعیت کے مسا ئل میں اضافے کا باعث ہے۔ یہ مقدمہ بازی میں اضافہ کا باعث بننے والے عناصر میں سے ایک ہے۔ مزید برآں معاشی جمود بھی مقدمہ بازی میں اضافہ کی توقع کو تقوعیت دیتا ہے۔ اس لیے ضلعی سطح پر جج صاحبان کی خالی اسامیاں پُر کیے جانے سے قطع نظر ، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مقدمہ بازی میں اضافے کے تناسب سے جج صاحبان کی اسامیوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وقوع پذیر تغیرو تبدل پر عدلیہ ہر قیمت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مناسب اقدامات کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ معیاری انصاف کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے میسر و دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے ، مقدمات کے نمٹائے جانے میں تاخیر کے مسئلہ کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو پوری لگن کے ساتھ جاری رکھا جا رہا ہے۔ جس کی اہمیت بنیادی نوعیت کی ہے اور اس پر مشکل حالات کے باوجود کسی قیمت پر بھی سمجھوتہ نہ کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آ ئین کے آرٹیکل 37(d)کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، ریاست کی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال بہت بڑی تعداد میں اہم آئینی مقدمات دائر کیے گیے تھے۔ اس مقصد کے لیے لار جر بنچزتشکیل دئیے گئے جوبلاشبہ باقاعدہ نالشوںاور اپیلو ں کی فیصلہ سازی میں رکاوٹ ہے۔ تاہم مقدمات کے نمٹائے جانے میں تاخیر کے مسئلہ سے عہدہ براء ہونے کے لیے اور فریقین مقدمہ کی داد رسی کے لیے میرے برادر جج صاحبان نے اپنی چھٹیاں قربان کر دی اور چھٹیوں کے دوران بہت بڑی تعداد میں نا لشوں اور اپیلوں کو نمٹادیا۔انہوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی میں بھی، عدالتی طریق کارمیں شفافیت کو اختیار کرنے، عدالتی آفسران اور عملہ میں بد عنوانی کی ہرشکل کے خاتمے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بلاشبہ بد عنوانی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ جس سے آہنی ہا تھو ں سے نپٹنا ہے۔ عدالتی پالیسی ،جوڈیشل آفسران اورعدالتی اہلکاروں سے سختی کے ساتھ ضابطہ اخلاق کی سخت پیروی کرنے ،بدعنوان اور نااہل عدالتی افسران اور عدالتی اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع کرنے پر زور دیتی ہے۔ متعلقہ ہا ئی کورٹس کے رجسٹرار صاحبان کے توسط سے شکایات موصول ہوتی ہیں۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے نفاذسے لے کر اب تک اُن عدالتی افسران اور عدالتی اہلکاروں جو اس طرح کی Practicesمیں ملوث پائے گئے، کے خلاف محکمانہ اقدامات کے گئے ہیں اور ان میں بہت سوں کو یا تو ڈسمس کر دیا گیا یا پھر نوکری سے نکال دیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ ہم نے وہ سب کچھ حاصل کیا جس کی ہمیں امید تھی۔ تاہم عمومی طور پر عدالت نے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ پچھلے جوڈیشل سا ل کے دوران بڑے بڑے بنچ بنائے گئے جس میں انتہائی اہم نوعیت کے مقدمات سنے گئے۔ لیکن میرے تمام برادر ججز لارجز بنچ کے بعد چھوٹے بنچز میں عدالتی وقت سے ماوریٰ میں بھی بیٹھے رہے۔ یقینا اس سے ہمیں Backlog کم کرنے میں کافی مدد ملی۔ اب اس انفراسٹرکچر میں مزید ترقی کے ساتھ اب عدالت نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ججزصاحبان برانچ رجسڑی خصوصاًپشاور اورلاہورمیں آسانی سے کام کریں گے۔ ہمیں اس حقیقت کا احساس ہے کہ Backlog کو ختم کرنے کیلئے پنجاب اور KPK میں سند ھ اور بلوچستان کی نسبت بنچ مقرر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان میں نسبتاً تھوڑی pendency ہے۔ سائلین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہم انشاء اﷲ پنجاب اور KPK میں زیادہ بنچ تشکیل دیں گے۔تاکہ عوام کو سستی اور جلدی انصاف مل سکے جیسا کہ آئین میں صراحت کی گئی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری ترجیح میں شامل یہ ہے کہ بہتر سے بہتر لوگ اعلیٰ عدلیہ کے جج بنیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعداد کی کمی کو دور کرنے کے لیے تمام صوبائی چیف جسٹس صاحبان کو کہا گیا ہے کہ وہ اہل اور قابل لوگوں کا نام تجویز کریں تاکہ ان کے ناموں کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے زیر آرٹیکل 175-A ، جو کہ آئین پاکستان کے تحت بنایا گیا ہے ، کے سامنے پیش کیا جاوے اور بعد ازاں پارلیمانی کمیٹی میں دیگر طریقہ کار کے مطابق، جو کہ اٹھارویں اور انیسویں ترامیم میں موجود ہے، کے تحت منظوری کے لیے بھیجا جا سکے۔ یہ طریقہ کار طویل ہے مگر کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو تیز تر کیا جائے تاکہ مقدمات کا جلدی فیصلہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جامع منصوبہ مرتب کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے زیر التواء مقدمات کا فیصلہ ہواور ان میں شامل بینچ وائز مقدمات ، برانچ رجسٹریوں میں عدالتی بنچوں کی تشکیل ، خصوصاً اُن برانچ رجسٹریوں میں جہاں زیر سماعت مقدمات کی تعداد زیادہ ہے ان میں زیادہ اہمیت جیل پٹیشن اور اپیلوں کی ہے ۔ بنچ نمبر ایک سروس ، کرایہ داری، فیملی کیس اور ماحولیاتی کیس کی سماعت کرے گا ریگولر پٹیشن کی بھی سماعت کرے گا دوران سماعت غیر ضروری التواء مقدمات کی درخواستوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان مسلمانوں کی جمہوری جدو جہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا جس کی قیادت بر صغیر پاک و ہند کے عظیم مسلمان وکیل اور قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کی ۔ ماضی قریب میں، جب ایک فوجی آمر نے ملک کے جمہوری نظام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو غیر فعال کیا ، جب انہوں نے PCO(پی ۔ سی ۔ او) اور دیگر غیر آئینی اقدامات کو جو اُس نے کیے تھے، قبول کرنے سے انکار کیا تو وکلاء برادری اس موقع پر اُٹھ کھڑی ہوئی اور تاریخی تحریک چلائی جو کہ بحالی عدلیہ، بحالی جمہوریت ، آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے اپنی رپورٹ جو کہ اٹھارویں ترمیم میں پیش کی گئی وکلاء تحریک کے کردار کوسرا ہتے ہوئے کہا ہے کہ آمر کے عدلیہ کے خلاف ناکام غیر آئینی اقدامات کو “قانون کی حکمرانی ـ”کی تحریک نے اکھاڑ پھینکا جس کو نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بین الاقوامی طور پر سراہا گیا ۔ آخر کار یہ تحریک 2008 کے الیکشن کا باعث بنی اور جنرل مشرف کو جا نا پڑا ۔وکلاء برادری کی جدو جہد اور قربانیوں کی وجہ سے خصوصی طور پر ، نوجوان وکلائ، سیاسی کارکن ، عوام الناس اور صحافی برادری نے جمہوری نظام کو مظبوط کرنے اور قومی ترقی اور امن کو قائم رکھنے کے لیے ساتھ چلے۔ اس موقع پر میں ہم آپ کو متنبہ کروںگا ۔ عدلیہ کی بحالی یا جمہوریت کی بحالی کا حکم بذات خود اختتام نہیں ہے بلکہ آخر تک مقصد کا حصول جیسا کہ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی اور جن مقاصد کا حصول فلاحی ریاست کے قائم رہنے کے لیے ضروری ہے ۔ آئین کے زیر سایہ اعلیٰ عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں اور انتظامیہ اور مقننہ کے اقدامات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی روشنی پرپرکھیں ۔ ججز اپنے حلف کے پابند ہیں کہ وہ انصاف ہر خاص و عام کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر مہیا کریں۔ ججز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آئین پاکستان کی حفاظت اور دفاع کریں۔ اسی طرح آئین پاکستان کی دفاع اور حفاظت کی ذمہ داری تمام حکومتی /عوامی نمائیندگان اور منتخب عوامی نمائندگان پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ ریاست کے تمام اداروں اور اعضاء کے لیے لازم ہے کہ وہ عوامی مفاد کی خاطر ایمانداری اور دیانتداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔




تبصرے