مقبوضہ کشمیر میں ہیومن رائٹس کمیشن کی سفارش کے باوجود گمنام قبروں کی تفتیش پر سرکاری انکار سے انسانی حقوق کی تنظیمیں ناراض ہیں۔کشمیر کے مختلف خطوں میں چھ ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن افراد کی ڈی این اے شناخت پر تنازعہ شدید ہوتا جارہا ہے


سری نگر(ثناء نیوز )مقبوضہ کشمیر میں ہیومن رائٹس کمیشن کی سفارش کے باوجود گمنام قبروں کی تفتیش پر سرکاری انکار سے انسانی حقوق کی تنظیمیں ناراض ہیں۔کشمیر کے مختلف خطوں میں چھ ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن افراد کی ڈی این اے شناخت پر تنازعہ شدید ہوتا جارہا ہے۔انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے سفارش کی تھی کہ ان قبروں میں دفن لوگوں کی شناخت کا انتظام کیا جائے، لیکن حکومت نے ان قبروں میں دفن افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ڈی این اے شناختی عمل سے انکار کردیا۔اس پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت دراصل دنیا میں پھیلی اسلامو فوبیا کی لہر سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سِول سوسائیٹیز یا سی سی ایس کے ترجمان خرم پرویز نے بی بی سی کو بتایا حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ کشمیر میں مارے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت کا ریکارڑ موجود نہیں ہے، دوسری طرف بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ یہاں کی چھ ہزار قبروں میں جو لوگ دفن ہیں وہ سب عسکریت پسند ہیں اور اکثر غیرملکی ہیں۔ یہ تو مذاق ہے۔رابطہ کرنے پر ریاست کے داخلی امور کے سیکریٹری بی آر شرما نے بتایا کہ حکومت ڈی این اے شناخت کے لئے تیار ہے، لیکن اس کے لئے ان والدین یا رشتہ داروں کو ایسی قبروں کی شناخت کرنا ہوگی جن میں انہیں اپنے اقربا کے دفن ہونے کا یقین ہے۔ شرما کہتے ہیں کہ ہم سبھی قبروں کو کھول کر لاشوں کا ڈی این اے کرنے کی فضول مشق کیوں کریں۔ اگر کوئی خاص شکایت ہے کہ فلاں قبر میں فلاں شخص کو دفن کیا گیا ہے ہم اس کے رشتہ دار سے خون کا نمونہ لے کر لاش سے بھی نمونہ لیں گے۔لیکن انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔دراصل چند ہفتے قبل خرم پرویز نے حکومت سے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ معلومات طلب کی تھیں کہ آیا انسانی حقوق کے کمیشن کی سفارش کا کیا ہوا۔ حکومت نے ستائیس صفحات پر مشتمل اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ گمنام قبریں تو زیادہ بھی ہوسکتی ہیں، لیکن ان سب میں مقامی یا غیرمقامی عسکریت پسند دفن ہیں جو فوج کے ساتھ مختلف اوقات میں جھڑپوں کے دوران مارے گئے۔اس کے علاوہ سرکاری ردعمل میں بتایا گیا ہے کہ قبروں میں دفن لوگوں کی تفصیلات عام کی گئیں تو کشمیر میں امن و قانون کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔حقوق انسانی کے لئے سرگرم حلقوں کا کہنا ہے کہ، حالات حقائق عام کرنے سے خراب نہیں ہوتے۔ حالات تب خراب ہوتے ہیں جب حقائق کو دبایا جائے اور انصاف کے راستے مسدود کئے جائیں۔
بھارتی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی

تبصرے