اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اسلام کے خلاف نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے قوانین بنانے کا مطالبہ کر دیا

نیویارک (ثناء نیوز ) اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اسلام کے خلاف نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے قوانین بنانے کا مطالبہ کر دیا، دنیا کے چھپن اسلامی ملکوں پر مشتمل تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کی طرف سے بات کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ میں پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں بننے والی توہین آمیز فلم کی مذمت کی جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی اور بہت سے ملکوں میں پرتشدد مظاہروں کا موجب بنی۔ پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فوری طور پر ریاستیں اپنے ملکوں میں ایسے قوانین نافذ کریں جو نفرت سے جنم لینے والے جرائم، نفرت انگیز تقاریر، امتیازی سلوک، مذہب کو منفی طور پر پیش کر کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے اور مذہبی منافرت پھیلانے اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے کے رجحان کا سدباب کر سکیں۔ امریکہ میں اوباما انتظامیہ نے اس توہین آمیز فلم کی مذمت کی ہے اور اسے قابل نفرت قرار دیا ہے لیکن مغربی ملک اسے آزادی رائے کے مسئلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور آزادی رائے پر کوئی قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان سمیت مختلف مسلمان ملکوں میں توہین مذہب کے قوانین کو وہ معاشرے میں جبر کی وجہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے سفیر نے کہا کہ بیہودہ انداز میں بنائی گئی یہ فلم، قرآن نذر آتش کرنے اور اشتعال انگیز خاکے بنانے کے واقعات مسلمانوں کے عقائد کی توہین کرنے، بدنام کرنے، تذلیل کرنے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی دانستہ کوششیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی حرکات آزادی رائے کے زمرے میں نہیں آتیں اور یہ واضح طور پر تشدد پر اکسانا اور اشتعال دلانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا دورِ حاضر کی نسل پرستی ہے اور اس سے اسی طرح ہی نمٹا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ دوہرے معیار کی ایک بڑی مثال ہوگی۔ اسلامو فوبیا بھی قانون کی نظر میں اس طرح جرم ہونا چاہیے جیسے کہ یہودیوں کے خلاف تحریر اور تقریر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فوری طور پر بین الاقوامی سطح پر آزادیِ اظہار کا ایک ایسا معیار مقرر کرنا ہوگا جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور جس میں آزادیِ اظہار اور تشدد اور نفرت پھیلانے میں فرق ہو جبکہ امریکہ کے سفیر ایلن چیمبرلین ڈوناہو کا کہنا تھا کہ جہاں پر اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے وہاں پر مذہب کی زیادہ تکریم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں پر آزادی رائے پر پابندی ہے وہاں ہم تشدد، غربت، مایوسی اور تذلیل دیکھتے ہیں۔ قبرص نے یورپی یونین کی طرف سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسل پرستی اور عدم برداشت کے خلاف جو موجودہ بین الاقوامی معاہدہ ہے وہ کافی ہے لیکن ضرورت صرف اس پر مثر طور پر عملدرآمد کرنے کی ہے۔ قبرص کے سفیر نے کہا کہ بہت سے ملکوں میں اس طرح کے قوانین اپنے مخالفوں کی آواز کو دبانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے