قمر زمان کائرہ نے واضح کیا ہے کہ طنز و مزاح کے نام پر ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کی تضحیک قطعا قابل قبول نہیں ہے حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے وزارت ، میڈیا کو سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے

اسلام آباد (ثناء نیوز )وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے واضح کیا ہے کہ طنز و مزاح کے نام پر ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کی تضحیک قطعا قابل قبول نہیں ہے حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے وزارت ، میڈیا کو سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے ۔ فخر الدین جی ابراہیم کی نگرانی میں بننے والے ضابطہ اخلاق پر شراکت داروں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ سینیٹرز نے بھی وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز پر سیاست دانوں کو طبلہ اور ہارمونیم بجاتے اور ڈانس کرتے ہوئے دکھانا قطعا تفریح نہیں ہے ۔ مہذب اور جمہوری معاشرے ہی روایات اور اقدار کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جمعرات کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس کے دوران کیا گیا ۔ اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کامل علی آغا کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہوا ۔ کمیٹی کو اشتہارات کی پالیسی اور ادائیگیوں کے معاملے پر بے قاعدگیوں کے حوالے سے ایک اشتہاری ایجنسی اور حکومت پنجاب کے درمیان تنازعے کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔ کمیٹی نے پنجاب کے صوبائی محکمہ اطلاعات اوراے پی این ایس کی تجویز پر پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ کے حسابات کی جانچ پڑتال سے متعلق خصوصی آڈٹ رپورٹ کی کاپی مانگ لی ہے ۔ کمیٹی نے محکمہ انسداد بدعنوانی کی جانب سے اس کیس میں اب کی جانے والی تفتیش کی تفصیلات سے بھی آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ کمیٹی نے سیکرٹری اطلاعات پنجاب معین الدین وانی بھی پیش ہو گئے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے تجویز دی کہ یہ ایک صوبائی حکومت اور اشتہاری ایجنسی کے درمیان معاملہ ہے اس بارے میں پنجاب حکومت نے خط لکھا ہے اور میں اس کا جواب دے دوںگا ۔ کمیٹی وزارت قانون سے رائے لے کیایہ کیس اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ سیکرٹری انفارمیشن چوہدری رشید احمد نے اشتہارات کی پالیسی کے بارے مین بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ا س ضمن میں 1973 ء مین وضع کردہ قواعد وضوابط پر عملدرآمد ہو رہا ہے ۔ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی وقتا فوقتا رہنما اصول ضرور بنتے رہے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اشتہارات کی پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم کو جو سمری بھجوائی گئی تھی یہ قبل از وقت انتخابات دھاندلی کی شروعات ہے ۔ صاف وشفاف پالیسی ہونی چاہیے انہوں نے تجویز دی کہ وزارت اطلاعات کو روزانہ کی بنیاد پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جاری کیے گئے اشتہارات کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنی چاہیے ۔ صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز دی کہ پالیسی کے مکمل جائزہ کے لیے سینیٹر پرویز رشید کی سربراہی میں سب کمیٹی قائم کردی جائے ۔ اور پوری فراخ دلی اور کھلے دل اور ذہن سے یہ تجویز پیش کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے ساتھ غیر ملکی دوروں میں قطعا نجی میڈیا کے نمائندوں کو شامل نہیںکیا جاتا ہے ۔ صدر آصف علی زرداری کے کسی دورے میں نجی میڈیا سے کوئی نمائندہ سرکاری خرچے پر ان کے ہمراہ نہیں گیا ایوان صدر ا س پر سختی سے عملدرآمد کررہا ہے ۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ قومی خزانہ عوام کی ملکیت ہے ۔ اشتہارات کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے ۔ تاثر یہی ہے کہ حکومت اس معاملے کو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ ہر دو رمیں ایسا ہوا ہے ۔ پی آئی ڈی کے حکام نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پی آئی ڈی کی جانب سے 2 ارب 46 کروڑ روپے کے اشتہارات جاری کیے گئے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بارے میں یہ تاثر نہیں ہے کہ وہ براہ راست اشتہارات جاری کرتی ہے ۔ تمام اخبارات کو پی آئی ڈی کے ذریعے ہی اشتہارات جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بعض وزارتیں ، ڈویژن ، محکمے ٹی وی چینلز کو ضرور براہ راست اشتہارات بجھوا دیتے ہیں اس حوالے سے پالیسی بنالی گئی ہے ۔ تمام اداروں کو وزیراعظم کی منظوری سے سمری بجھوا دی گئی ہے ۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ جو پالیسی ہے اس پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں ایسا ہی صوبوں میں ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پالیسی پر مکمل طورپر عملدرآمد نہ کیا جائے تو میڈیا کے کروڑوں روپے کے واجبات سامنے آتے ہیں ۔ فری فارآل نہیں ہونا چاہیے ۔ پی آئی او نے بتایا کہ سنٹرل میڈیا لسٹ پر 1790 اخبارات و رسائل اور جرائد ہیں ۔ 25 فیصد کوٹہ علاقائی اخبارات کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔ سینیٹر پرویز رشید نے تجویز دی کہ اشتہارات کی پالیسی کے بارے میں سارک ممالک کی پالیسی سے تقابلی جائزہ لیا جائے ۔ کمیٹی نے اس ضمن میں وزارت اطلاعات ونشریات کو ہدایت کی ہے کہ بھارت ، برطانیہ اور ترکی میں اشتہارات کے حوالے سے ریاست کی جانب سے تیار کیے گئے طریقہ کار کا جائزہ لے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ انتخابات سرپر ہیں تو اس وجہ سے یہ رہنما اصول جاری کیے گئے ہیں ۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ قومی مفاد یہی ہے کہ اشتہارات کے حوالے سے مرکزی نظام ہونا چاہیے ۔ قومی مفادات کو میڈیا کے حوالے سے علاقائی طور پر تحفظ نہیں کیا جا سکتا ۔عدم مرکزیت سے مسائل بڑھیںگے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ تجویز یہ ہے کہ تمام سرکاری ادارے پبلی سٹی اور اشتہارات کے حوالے سے اپنے بجٹ کی تفصیلات وزارت اطلاعات کو فراہم کردے تاکہ بعد میں واجبات کا مسئلہ پیدا نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ سرکولیشن کی بنیاد پر سارے اشتہارات جاری نہیں کیے جا سکتے ۔جس طبقے اور علاقے کو مہم کے حوالے سے پیغام دینا ہوتا ہے ا س حوالے سے اخبار اور ٹی وی چینل کا انتخاب ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں یہ افواہ گرم ہے کہ وزرات اطلاعات نے اربوں روپے نکال لیے ہیں جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے وزارت کے چار ارب روپے کا ذکر بجٹ دستاویز میں موجود ہے انہوں نے پہلی بار اعتراف کیا کہ وزارت کا1 کروڑ 20 لاکھ سیکرٹ سروس سٹرکچر فنڈ ضرور موجود ہے ۔انہوں نے کہا کہ پالیسی کے جائزے کے لیے حکومت کو کمیٹی کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کی تضحیک قابل قبول نہیں ہے اشتہارات کو عطیات کا تصور نہ کیا جائے یہ حکومتی نکتہ نظر کی پروجیکشن کے لیے بھی ہوتے ہیں حکومتیں سیاسی جماعتوں کی وجہ سے بنتی ہیں اور ہر جماعت کو اپنی حکومت کی نمایاں کامیابیوں کو اجاگر کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا ہاؤسز نے تسلسل سے سیاستدانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور کسی ادارے پر ان کی نظر نہیں جاتی ۔ ان بعض چینلز پر بھانڈ بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے تماشے لگا ئے ہوئے ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سیاستدانوں کو طبلہ بجاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ، اسے خواتین کے ساتھ بنیان اور نکر میں ڈانس کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے یہ ۔طنز و مزاح نہیں بلکہ تضحیک ہے ۔ میڈیا کو اس کااحساس کرنا چاہیے قمر زمان نے کہا کہ ہم بھی طنز ومزاہ ادب کا خوبصورت حصہ ہے اسی تصور کے ساتھ اسے لیا جانا چاہیے ۔ سیاستدانوں کی تضحیک نہیں ہونے دوںگا۔ ہم میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگا رہے ہین ہمارے میڈیا سے تعلقات اچھے ہیں ۔ اور چاہتے ہیں کہ مشاورت سے ضابطہ اخلاق بن جائے

Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے