چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی بھی ملکی نظام کو آئین کے مطابق نہیںچلایااب جو بھی آئین کی پاسداری پر یقین رکھے گا وہ ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔اب غیر آئینی کاموں کی اجازت نہیں


شیخوپورہ(ثناء نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی بھی ملکی نظام کو آئین کے مطابق نہیںچلایااب جو بھی آئین کی پاسداری پر یقین رکھے گا وہ ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔اب غیر آئینی کاموں کی اجازت نہیں ۔عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں لگنے والے کسی بھی مارشل لاء کی مذمت نہیں کی گئی اس وجہ سے بار بار آمروں کو مارشل لاء لگانے کی جرات ہوئی۔پہلی بار موجودہ عدلیہ نے آمر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا1999ء میں لگائے گئے مارشل لاء کی بھی مذمت نہیں کی گئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شیخوپورہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اس تاریخی شہر میں بار کے اُن معزز اراکین سے خطاب کر رہا جنہوں نے وکلاء تحریک کے دوران ہمیشہ قانون سے تعلق رکھنے والے طبقے اور سول سوسائٹی کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ جس کے دوران ان تمام لوگوںنے میں معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے پُر امن طریقے سے بے لوث تگ و دو کی اور مضبوطی سے اپنے مقصد کے حصول کے لئے ڈٹے رہے۔ قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک نے وکلاء میں ایک نئی روح بیدار کی اور وکلاء کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جہاں پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون سے معاشرے کی بہبود کے لئے کام کر سکیں۔ یہ تحریک در اصل اصولوں کی جدوجہد تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ کو جو عزت آج حاصل ہے وہ در اصل وکلاء ، سول سوسائٹی کے اراکین ، سیاسی جماعتوں کے کارکنان ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی باہمی جدوجہد کی وجہ سے ہے اور یقینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس عزت اور رتبے کا تحفظ کریں۔ بلاشبہ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لئے اور جلد انصاف کی فراہمی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ متذکرہ بالا ذمہ داریوں کوپورا کرتے ہوئے ریاست کے عدالتی ادارے اور سپریم کورٹ جو کہ حتمی عدالت مانی جاتی ہے کو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرنا چاہئیے اور آئین کی بالا دستی کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ عدالت عظمیٰ نے ہمیشہ آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دئیے جن کی بنا ء پر مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جان جی رابرٹس کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جو ’’ثالث قواعد بناتے نہیں ہیں وہ قواعد کا اطلاق کرتے ہیں ، ایک ثالث اور جج کا کردار پیچیدہ ہوتا ہے اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر کوئی اصول و قواعد پر عمل کرے لیکن یہ محدود کردار ہے۔ کوئی بھی فیصلے کے پیچھے چھپے ثالث کو نہیں دیکھتا‘‘۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ملک کی تاریخ سے یہ عیاں ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیارات کو محدود کرنے کی بار ہا کوششیں کیں لیکن اللہ کے فضل سے عدالتِ عظمی نے اپنی تمام آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ان تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دے دیا عدالت کے اِن فیصلوں کو تمام اہلِ قانون نے سراہا اور اسے آئینی کے مطابق قرار دیا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ماضی قریب میں عدلیہ کا ساتھ دینے کے عہد کی تجدید اور ملک کی سب سے بڑی عدالت پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا درحقیقت عدالت کے اُن ہی فیصلوں کی توثیق ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ریاست کا مرکزی ستون ہے اور اسے نہ صرف ریاست کے ڈھانچے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے کے قابل ہونا چاہئیے بلکہ اسے ریاست کے باقی ستونوں کو بھی استحکام بخشنا چاہئیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ مضبوطی آئے گی کہاں سے، باہر سے یا اندرونی طور پر؟ میرے مطابق عدلیہ کی اندرونی استقامت ہی اُسے امورِ مملکت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گی اور یہ اندرونی استقامت اُن اشخاص کے کردار اور پیشہ واریت کی مضبوطی میں پوشیدہ ہے جو کہ عدلیہ کی مدد گار و معاون ہیں ان افراد سے میری مُراد بینچ اور بار دونوں ہیں۔ یہ وہ سرا ہے جہاں سے ہماری تمام کوششوں اور وسائل کو رہنمائی ملنی چاہئیے۔ ضلعی عدلیہ عدالتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اگر ضلعی عدلیہ اپنے فیصلوں سے عوام کو مطمئن کرے گی تو ہی اسے عوام میں مقبولیت اور عزت حاصل ہو گی۔ تقریباً نوے فیصد سائلین پہلے مرحلہ پر ضلعی عدالتوں میںہی آتے ہیں لہذا عوام میں عدالتی نظام کا کیا تاثر قائم ہوتا ہے اس کا انحصار براہِ راست اُن تجربات پر ہے جو وہ ضلعی عدالتوں میں کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نا صرف سائیلن کے آزار کا باعث بنتی ہے بلکہ سماجی و معاشی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ مختلف اوقات میں قائم کردہ قانونی اصلاحاتی کمیشن اور کمیٹیوں کے سامنے یہ مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے عوام اپنے مسائل عدالتوں میں لانے سے گھبراتے ہیں۔ ان حالات میں بار عوام کے شعور کی آواز بنی اور اِس نے اُن کی آزادی کو تحفظ بخشا۔ یہ ملک کے وکلاء ہی تھے جنہوں نے قانون کی حکمرانی کے لئے بے مثل جدوجہد کی اور آئین کے تحفظ کے لئے عوام کو بیدار کیا۔ وکلاء کے طبقے نے قانون کے پیشہ کو عظیم رتبہ دلوایا ہے وہ عوام کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور عدلیہ کی آزادی کے لئے انہوں نے بینچ کے ساتھ مل کر ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئینی اصلاحات کے نفاذ کے لئے خاطر خواہ جدوجہد کی۔ ان کی ان انتھک کوششوں کے بغیر عدلیہ اپنا یہ موجودہ مقام کبھی نہ پا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بار اور بینچ ملک کے عدالتی نظام کے دو اہم جزو ہیں اور اگر ایک جزو اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے نہیں نبھائے گا دوسرا جزو از خود سُست ہو جائے گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ قومی عدالتی پالیسی کے نفاذ کے بعد ججوں نے التواء میں پڑے مقدمات کو چیلنج کے طور پر قبول کیا اور ان کو نمٹانے کی حتی المقدور کوشش کی اب یہ بار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ یہاں میں ضرور کہوں گا کہ ضلعی سطح پر اعلیٰ عدالتی افسران کی جانب سے بد اعمالی اور بے ایمانی ہمارے ادارے کی اہم اقدار کو گھُن کی طرح کھائے جا رہی ہے یہ نہ صرف شفاف طریقے سے انصاف کی فراہمی کی ہماری صلاحیتوں کو کمزور کر رہی ہے بلکہ یہ ہم سب کی بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے تمام ہائی کورٹس کو ہدایت دی ہے کہ بددیانتی اوربد اعمالی کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جائے اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کے تمام ہائی کورٹس نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جہاں ہرکرپشن اور بد عملی کی شکایت جو خواہ جج کی جانب سے ہوں یا سٹاف کی جانب سے ، شفاف طریقے سے درج کرائی جا سکے گی۔ میں کسی بھی قسم کی چھوٹی سے چھوٹی بد اعمالی کو کسی بھی سطح پر عدالتی نظام میں برداشت نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہال میں موجود تمام افراد سے درخواست ہے کہ جب کبھی آپ کے علم میں ضلعی سطح پر یا پھر اس سے اعلیٰ سطح پر کسی بھی قسم کی بے ایمانی یا کرپشن آئے تو آپ مجھے میرے رجسٹرار یا رجسٹرار ہائی کورٹ کے توسط سے اس کی بابت مطلع کریں۔انہوں نے کہا کہ میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ہم نافرمانوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ اسی طرح سے میں آپ سب سے امید کرتا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داریا ں نبھاتے ہوئے اور اپنے موکل کے سامنے بہترین اخلاقی طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں، ہمیشہ کوشش کریں کے جھوٹی مقدمے بازی کی حوصلہ شکنی ہو اور اپنے طرزِ عمل میں ہمیشہ صاف اور کھرے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بینچ اور بار دونوں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور دونوں ہی کرپشن اور بد اعمالی کو اپنے کام سے ختم کر کے انفرادی طور پر اور بطور ایک ادارہ معاشرے میں اونچا مقام اور وقار حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت محسوس کرتا ہوں جسے اس اہم نظام میں انتہائی با صلاحیت، با عمل و با اصول افراد کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا مقصد ایک ایسا عدالتی نظام قائم کرنا ہے جو تمام پاکستانیوں کی ضرورتوں کو پورا کرے، ہماری آزادی کو قائم رکھے، تبدیلیوں کے راستے کھولے، اپنا محاسبہ خود کرے اور سب سے آخری اور بنیادی طور پر ہر خاص و عام کو انصاف باہم پہنچانے کے اپنے وعدے پر قائم رہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ مل کر ہم پاکستانی عدالتی نظام کو مضبوط بنائیں اور شہریوں کو کم خرچ اور آسان طریقے سے اپنی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کریں۔



Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور

تبصرے