: سپریم کورٹ نے صدر آصف زرداری ججز تقرری کیس میں ریفرنس دائرکر نے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئینی طریقہ بھی یہی ہے کہ صدرعدالت سے رہنمائی حاصل کریں اور اگر صدر کی جانب سے ریفرنس دائر نہ کیا گیا تو کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی


اسلام آباد (ثناء نیوز): سپریم کورٹ نے صدر آصف زرداری ججز تقرری کیس میں ریفرنس دائرکر نے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئینی طریقہ بھی یہی ہے کہ صدرعدالت سے رہنمائی حاصل کریں اور اگر صدر کی جانب سے ریفرنس دائر نہ کیا گیا تو کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججوں کیلیے عبوری ریلیف کی استدعا مسترد کردی ہے۔جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی مستقل تقرری اور جسٹس نورالحق قریشی کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع بارے صدر کی جانب سے سمری مسترد کیے جانے کے خلاف مقد مہ کی سماعت کی۔مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے صدر کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل تحریری جواب جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صدرریفرنس دائرکرنا چاہتے ہیں جس میں وہ جوڈیشل کمیشن کی غیرآئینی تشکیل کا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ریفرنس میں سوال اٹھایا جائے گا کہ اس معاملے میں کیا صدرکا کردارصرف ربڑسٹیمپ کا ہے۔ صدرکوعدالت پر اعتماد ہے،اسی لئے ریفرنس کا فیصلہ کیا ، وہ عدالت سے رہنمائی چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری ڈی ایٹ کانفرنس کے سلسلے میں مصروف تھے، ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم وفاقی وزیرقانون فاروق ایچ نائیک سے اس سلسلے میں رابطہ ہوا ہے۔ وزیر قانون نے بتایا ہے کہ صدر مملکت آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کرنا چاہتے ہیں۔ ججز تقرری کیس میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ صدر کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ صدر نے ریفرنس دائرکرنیکا فیصلہ کرکے عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آئینی طریقہ بھی یہی ہے کہ صدرعدالت سے رہنمائی حاصل کرے۔ درخواست ندیم احمد ایڈووکیٹ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اورصدرکی جانب سے ریفرنس دائرکرنے کی بات ہورہی ہے، صدر کا تاخیر سے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ عدالت پر چھوڑ دیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس میں صدرکوصرف ایڈوائس دے سکتے ہیں، معاملے کوغیرآئینی سمجھ کرعمل نہ کرناخطرناک رجحان ہے۔وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور صدر کی جانب سے ریفرنس دائر ہونے کی بات ہو رہی ہے ۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے عدالت سے رہنمائی لینے کا فیصلہ کیا ہے اور آئینی طریقہ بھی یہی ہے اس طرح صدارتی ریفرنس پر اٹارنی جنرل اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور آئینی ماہرین کی رائے بھی سامنے آ جائے گی ۔ اکرم شیخ نے اس تجویز کی مخالفت کی اور عدالت پر زور دیا کہ ریفرنس دائر ہونے کے باوجود عدالت موجودہ درخواست پر فیصلہ دینے کی مجاز ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کی جانب سے سمری واپس کرنے کے ساتھ ریفرنس دائر نہ کرنا بدنیتی پر مبنی ہے اس پر جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ صدر کے بارے میں ایسے لفظ استعمال نہ کئے جائیں ۔اکرم شیخ نے جسٹس خلجی عارف کو جواب دیا کہ آپ ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے میں درخواست گزار کے وکیل کے طورپر بدنیتی کا الزام لگا سکتا ہوں ۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ حتمی فیصلہ آنے تک ججز کو عبوری طو رپر کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ کیونکہ یہ انصاف تک رسائی کا معاملہ ہے اس میں تعطل نہیں ہونا چاہئے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدر کی جانب سے ریفرنس میں جو سوالات اٹھائے جائیں گے وہ اسی سماعت میں حل کر سکتے ہیں ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اٹارنی جنرل دو ہفتوں میں صدارتی ریفرنس دائر کریں ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس میں ایک بنیادی سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ دیگر سوالات بھی اس کیس سے متعلقہ ہوں گے ۔ صدر کمیٹی کے فیصلہ سے قبل عدالت سے راہنمائی لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل درست نہیں تھی ۔ اس لئے ریفرنس دائر کرنے کے لئے سماعت 15 روز کے لئے ملتوی کی جائے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ریفرنس پر اٹارنی جنرل ، ایڈووکیٹ جنرلز اور آئینی ماہرین کی رائے آئے گی ۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران صدر کی جانب سے ریفرنس دائر نہ کیا گیا تو کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی۔


Ehtasabi Amal Lahore احتسابي عمل لاھور Click on Ehtasabi Amal Facebook

تبصرے